افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں میں سے لگ بھگ ایک سو خاندانوں کے افراد چارسدہ میں بھی مقیم ہیں۔
ان کی کہانی اور موجودہ حالات زندگی بھی نقل مکانی کر کے بنوں اور دیگر پہنچنے والے لاکھوں دیگر افراد سے مختلف نہیں۔
محمد یونس پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں جو نقل مکانی سے قبل شمالی وزیرستان کے ایک پرائمری اسکول میں پڑھاتے تھے۔ گھر بار چھوڑ کر چارسدہ تک پہنچنے کی مشکلات ان کے لیے زندگی کا ایک تلخ تجربہ رہا۔
میران شاہ کے علاقے گاؤں محمد خیل سے آنے والے نجیب اللہ کھیتی باڑی کر کے اپنی گزر اوقات کا بندوبست کرتے تھے۔ وہ نقل مکانی کر کے پہلے بنوں پہنچے لیکن ان کے بقول صورتحال ان کے لیے کسی بھی طرح موافق نہیں تھی جس کی وجہ سے انھوں نے وہاں سے بھی کوچ کرنے کا سوچا۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں راشن اور حکومتی امداد کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں سے لگ بھگ 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ دشوار گزار سفر اور موسم کی شدت کے علاوہ بے سروسامانی نے ان کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کر کے چارسدہ پہنچنے والی خاتون عفانہ بی بی کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان سے نکلتے وقت بہت سے خواتین حاملہ بھی تھیں اور سفر کی پریشانی اور مشکلات کی وجہ سے انھیں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔
عفانہ کا خاندان 20 ہزار روپے کرائے پر ایک گھر میں رہ رہا ہے اور پیسے نہ ہونے کی وجہ سے انھیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ یہ ادائیگی کیسے ہوگی۔
چارسدہ کے مقامی سماجی کارکن طارق باچا کہتے ہیں کہ پہلے تو کسی کی توجہ ان بے گھر خاندانوں کی طرف گئی ہی نہیں پھر جب لوگوں کو معلوم ہونا شروع ہوا تو انھوں نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر ان کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت جو کچھ ان سے ہوسکا ان لوگوں کی مدد کے لیے کیا لیکن ان کے بقول نقل مکانی کر کے آنے والوں کی مناسب دیکھ بھال کے لیے سرکاری سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے تسلی بخش انتظامات کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔