پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ قیام امن کو یقینی بنانا دونوں ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس کے لیے وہ تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
وزرائے اعظم نے جنوبی ایشیا سے دہشت گردی کی ’لعنت‘ کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے مشیر برائے قومی سلامتی نئی دہلی میں ملاقات کر کے دہشت گردی سے جڑے تمام اُمور پر بات چیت کریں گے۔
بھارتی وزیراعظم نے 2016ء میں اسلام آباد میں سارک سربراہ اجلاس میں شرکت سے متعلق نواز شریف کی دعوت بھی قبول کی۔
دونوں وزرائے اعظم شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے روس میں ہیں اور جمعہ کو اُن کے درمیان ملاقات روس کے شہر اوفا میں ہوئی۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ دونوں وزرائے اعظم نے ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنوبی ایشیا سے اس ’لعنت‘ کا خاتمہ کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ امن کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ترقی کو فروغ دیا جائے اور اس کے لیے دونوں ملک تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
بھارت کے سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اس موقع پر بتایا کہ ملاقات میں دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر نئی دہلی میں ملاقات کریں گے جس میں دہشت گردی سے جڑے تمام معاملات پر بات چیت کی جائے گی۔
اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ پاکستان رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور بھارتی بارڈر سکیورٹی فورسر کے سربراہ کے درمیان جلد ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے درمیان ملاقات بھی ہو گی۔
دونوں ممالک نے اپنے ہاں قید میں ایک دوسرے کے تمام ماہی گیروں کو 15 روز میں رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اُن کی کشتیاں بھی واپس کی جائیں گی۔
دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ ممبئی حملوں سے متعلق مقدمے کو تیزی سے نمٹانے کے بارے میں طریقوں پر بھی بات چیت کی اور اس سلسلے میں اضافی معلومات کی فراہمی پر بھی اتفاق ہوا۔
مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے ایک سے دوسرے ملک سفر کرنے کے خواہش مند افراد کی سہولت کا طریقہ کار بھی وضع کیا جائے گا۔
تقریباً 50 منٹ تک جاری رہنے والی بات چیت میں پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی شریک تھے۔
وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب کے درمیان مئی 2014ء کے بعد یہ پہلی باضابطہ ملاقات ہے۔ پاکستانی وزیراعظم، نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے گزشتہ سال مئی میں دہلی گئے تھے۔
دونوں وزرائے اعظم کے درمیان کٹھمنڈو میں نومبر 2014ء میں ’سارک‘ سربراہ اجلاس کے موقع پر کوئی باضابطہ ملاقات تو نہیں ہوئی، البتہ صرف مصافحہ اور سرسری بات چیت ہوئی۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان حالیہ مہینوں میں ایک دوسرے کے خلاف تلخ بیانات کے تبادلوں سے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہو چلے تھے اور امید کی جا رہی ہے کہ جمعہ کو پاک بھارت قیادت کی ملاقات سے اس کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی اپنے بھارت ہم منصب سے ملاقات کے بارے میں پاکستانی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ کشیدگی کے حالات میں دونوں رہنماؤں کے درمیان رابطہ اہم ہے لیکن اس سے بہت زیادہ اُمید رکھنا درست نہیں ہو گا۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہداللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اختلافات کا خاتمہ مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کہتے ہیں کہ اگر بھارتی وزیراعظم آئندہ سال پاکستان آتے ہیں تو اس سے دو طرفہ تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے دیرنیہ مسائل ہیں اور اُن کے حل کے لیے سنجیدگی اور خلوص نیت سے بات چیت ضروری ہے۔
وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب کے درمیان ملاقات کے بعد دونوں ممالک سکیرٹری خارجہ کی طرف سے مشترکہ طور پر جو اعلامیہ پڑھا گیا، اُس میں تناؤ کا سبب بننے والے حالیہ واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا اور توجہ مسائل کے حل کے لیے اقدام تجویز کرنے پر رکھی گئی۔