پاکستان نےاُمید ظاہر کی ہے کہ بھارت کے ساتھ آئندہ ماہ اسلام آباد میں تجارتی تعلقات پر بات چیت سے دو طرفہ تجارتی روابط ممبئی حملوں سے پہلےوالی سطح پر بحال ہو جائیں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 2004 میں جامع مذاکرات کے آغاز سے پہلے دو طرفہ تجارت کا سالانہ حجم تقریباََ پچیس کروڑ ڈالر تھا جو بتدریج بڑھتے ہوئے دو ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ لیکن نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے نتیجے میں دو طرفہ تجارت کا حجم تنزلی کا شکار ہوا کیونکہ بھارت نے یکطرفہ طور پر امن مذاکرات اور دیگر رابطے معطل کردیے تھے۔
تاہم اس ہفتے نئی دہلی میں داخلہ سیکرٹریوں کی بات چیت کے بعد امن مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو گیا ہے جس سے تجارتی روابط میں بہتری کی بھی اُمید پید ا ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگوکرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری برائے تجارت ظفر محمود نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے آئندہ ماہ کے آخرمیں اسلام آباد میں بھارتی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی اُن کی بات چیت کے بعد تجارتی تعاون کا سلسلہ وہیں سے بحال ہو جائے گا جہاں سے یہ معطل ہوا تھا۔
ملاقات کی حتمی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیاگیا۔
’’مذاکرات میں بہت سے تکنیکی امور پر بات چیت ہوگی اور دو طرفہ تجارتی تعاون کو فروغ دینے اور اسے دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے پر غور کیا جائے گا‘‘ ۔
ظفر محمود کا کہنا تھا کہ بات چیت میں باہمی تجارت میں حائل رکاوٹیں یا ’’نان ٹیرف بیرئرز‘‘ دور کرنے کے علاوہ تجارت کا توازن بہتر بنانے پر بھی غور ہو گا جو اس وقت نئی دہلی کے حق میں ہے۔
پاکستان میں تاجر برادری بھی بھارت کے ساتھ تجارتی رابطوں کو فروغ دینے کی حامی ہے۔ لاہور کے ایوان صنعت و تجارت کے صدر شہزاد علی ملک کا کہنا ہے کہ خاص طور پر خوراک کے شعبے میں تجارتی تعاون میں اضافہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں یہ خیال ضرور رکھا جانا چاہئیے کہ بھارت سے بہت زیادہ درآمدات سے ملکی صنعت کو نقصان نا پہنچے۔
پاکستان اور بھارت کے داخلہ سیکرٹریوں کے درمیان اٹھائیس اور انتیس مارچ کو ہونے والی بات چیت کو دونوں ملکوں کے حکام نے انتہائی مثبت قرار دیا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ عالمی کپ کا سیمی فائنل دیکھنے کے لیے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کی دعوت پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا موہالی جانا مستقبل میں ہونے والے بات چیت کے لیے ماحول کو مزید سازگار بنائے گا۔