اسلام آباد —
پاکستان کے شورش زدہ بلوچستان صوبے میں ایک نوجوان رپورٹر کے قتل کے خلاف منگل کو صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے ملک بھر میں احتجاجی جلوس نکالے اور اس واقعہ کی شدید مذمت کی۔
ضلع خضدار پریس کلب کے سیکرٹری جنرل اور نجی ٹی وی چینل ’آے آر وائی‘ سے منسلک 37 سالہ عبدالحق بلوچ گزشتہ ہفتہ کی شب گاڑی میں گھر واپس جارہے تھے جب مسلح نقاب پوشوں نے فائرنگ کر کے اُنھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول رپورٹر کے قاتلوں کی نشاندہی کرنے پر 25 لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا۔
لیکن صحافتی تنظیمیں حکام کے ایسے اقدامات سے مطمئن نہیں اور وہ صحافیوں کی حفاظت کے بہتر انتظامات کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے جہاں 2004ء سے ریاست مخالف بلوچ تنظیموں کی تخریبی کارروائیوں میں غیر معمولی شدت آئی ہے۔
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور قوم پرست جماعتوں کا الزام ہے کہ بلوچ بغاوت کا سر کچلنے کی کوشش میں سکیورٹی فورسز نے سینکڑوں افراد کو ہلاک یا پھر ماورائے قانون حراست میں لےرکھا ہے۔
صوبے میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانا انتہائی مشکل ہوچکا ہے کیونکہ بلوچ کالعدم تنظیموں کی طرف سے اُن پر دباؤ ہے جبکہ ریاست کے سلامتی سے متعلق ادارے بھی باغیوں کے موقف کی تشہیر کے خلاف ہیں۔
مقتول صحافی عبدالحق بلوچ کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اُن پر قاتلانہ حملے سے قبل بعض تنظیموں کی طرف سے اُنھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھی جبکہ خضدار کے دیگر صحافیوں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال آٹھ صحافی پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک کردیے گئے تھے جس پر صحافیوں کی بین الاقوامی نمائندہ تنظیموں نے صحافت کے لیے اسے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔
ضلع خضدار پریس کلب کے سیکرٹری جنرل اور نجی ٹی وی چینل ’آے آر وائی‘ سے منسلک 37 سالہ عبدالحق بلوچ گزشتہ ہفتہ کی شب گاڑی میں گھر واپس جارہے تھے جب مسلح نقاب پوشوں نے فائرنگ کر کے اُنھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول رپورٹر کے قاتلوں کی نشاندہی کرنے پر 25 لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا۔
لیکن صحافتی تنظیمیں حکام کے ایسے اقدامات سے مطمئن نہیں اور وہ صحافیوں کی حفاظت کے بہتر انتظامات کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے جہاں 2004ء سے ریاست مخالف بلوچ تنظیموں کی تخریبی کارروائیوں میں غیر معمولی شدت آئی ہے۔
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور قوم پرست جماعتوں کا الزام ہے کہ بلوچ بغاوت کا سر کچلنے کی کوشش میں سکیورٹی فورسز نے سینکڑوں افراد کو ہلاک یا پھر ماورائے قانون حراست میں لےرکھا ہے۔
صوبے میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانا انتہائی مشکل ہوچکا ہے کیونکہ بلوچ کالعدم تنظیموں کی طرف سے اُن پر دباؤ ہے جبکہ ریاست کے سلامتی سے متعلق ادارے بھی باغیوں کے موقف کی تشہیر کے خلاف ہیں۔
مقتول صحافی عبدالحق بلوچ کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اُن پر قاتلانہ حملے سے قبل بعض تنظیموں کی طرف سے اُنھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھی جبکہ خضدار کے دیگر صحافیوں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال آٹھ صحافی پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک کردیے گئے تھے جس پر صحافیوں کی بین الاقوامی نمائندہ تنظیموں نے صحافت کے لیے اسے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔