وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد حکمران اتحاد پارلیمان میں اکثریتی ارکان کی حمایت سے محروم ہوگیا ہے۔
اتوار کو کراچی اور لندن میں بیک وقت ہونے والے رابطہ کمیٹی کے ایک اجلاس کے بعد جاری کیے گئے بیان میں ایم کیو ایم نے اپنے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ جن مسائل کے حل کے لیے حکومت پر زور دیا جاتا رہا اُن پر پیش رفت نہیں ہوئی بالخصوص پیٹرولیم کی قیمتوں میں ایک روز قبل کیا جانے والا اضافہ متحدہ قومی موومنٹ کے لیے قابل قبول نہیں۔
”حکومت نے نیا سال شروع ہوتے ہی پیٹرول اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے جو پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کے لیے قابل برداشت نہیں۔ ان حالات میں حکومت میں بیٹھنا ایم کیو ایم کے خیال میں عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی اس لیے اُس نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ “
ایم کیوایم کے اعلان پر فوری ردعمل میں وزیر اعظم گیلانی نے کہا ہے کہ یہ پیش رفت حکومت کے لیے خطرہ نہیں اور وہ اپنی مدت مکمل کرے گی۔ لاہور میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے توقع ظاہر کی کہ متحدہ قومی موومنٹ ، مسلم لیگ ن اور دوسری سیاسی جماعتیں اُن کی حکومت کی حمایت جاری رکھیں گی کیونکہ ”مجھے پارلیمان نے متفقہ طور پر ملک کا وزیراعظم منتخب کیا تھا۔“
آئین پاکستان کے تحت جب تک پارلیمان میں اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کو ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور نہیں کرتیں عددی اکثریت کھونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں ایم کیو ایم نے وفاقی کابینہ سے اپنے دونوں وزراء کو الگ کرنے کااعلان کیا تھا جبکہ اس سے قبل جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی پیپلز پارٹی کی زیرقیادت حکمران اتحاد سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت برقرار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو کم از کم 172ارکان کی حمایت درکار ہے لیکن ایم کیو ایم کے 25 ارکان کے الگ ہونے کے بعد اب یہ تعداد 160 سے بھی کم ہو گئی ہے ۔