کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغر بی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جمعرات کو ہونے والے بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 96 ہو گئی ہے اور جمعہ کو شہر میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال اور فضا سوگوار ہے۔
صوبائی حکومت اور شیعہ تنظیموں نے ان ہلاکتوں پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
کوئٹہ پولیس کے سربراہ زبیر محمود نے جمعرات کو رات گئے پر یس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ علمدار روڈ پر ہونے والے دو دھماکوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جن میں پو لیس کے ایک ڈپٹی سپرٹنڈنٹ سمیت نو اہلکار بھی شامل ہیں۔
دھماکے سے ایک نجی ٹی وی چینل ’سماء‘ کے رپورٹر سیف الرحمان اور کیمرہ مین شیخ عمران کے علاوہ ایک خبر رساں ادارے کا فوٹو گرافر محمداقبال بھی ہلاک ہو گئے تھے، اس کے علاوہ زخمی ہونے والوں میں بھی دو صحافی شامل ہیں۔
جمعہ کو ہلاک شدگان کی نماز جنازہ اور تدفین بھی کر دی گئی۔
ان بم دھماکوں میں 150 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے بیشتر اب بھی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
ادھر وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ حکومت اور اس کے تمام ادارے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ آج وہ (دہشت گرد) پاکستان کی سرزمین میں بھاگتے پھر رہے ہیں وہ چھپ کر حملے کرنے کی کیفیت میں ہیں۔۔۔ہمارے سویلین اور پریس کے ساتھی اس میں مارے گئے اس عمل میں ہمارے سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی مارے گئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹیوں پر موجود تھے۔‘‘
جمعرات کو پہلا دھماکا کوئٹہ کے مصروف علاقے باچا خان چوک پر ہوا جہاں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے چند گھنٹوں بعد شہر کے مصروف علاقے علمدار روڈ پر یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جن میں حکام نے 84 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ علمدا روڈ پر پہلا دھماکا خودکش تھا جس کے بعد کوریج کے لیے ذرائع ابلاغ کے نمائندے، امدادی کارکن اور پولیس کے اہلکار جب موقع پر پہنچے تو دوسرا دھماکا ہو گیا۔
صوبائی حکومت اور شیعہ تنظیموں نے ان ہلاکتوں پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
کوئٹہ پولیس کے سربراہ زبیر محمود نے جمعرات کو رات گئے پر یس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ علمدار روڈ پر ہونے والے دو دھماکوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جن میں پو لیس کے ایک ڈپٹی سپرٹنڈنٹ سمیت نو اہلکار بھی شامل ہیں۔
دھماکے سے ایک نجی ٹی وی چینل ’سماء‘ کے رپورٹر سیف الرحمان اور کیمرہ مین شیخ عمران کے علاوہ ایک خبر رساں ادارے کا فوٹو گرافر محمداقبال بھی ہلاک ہو گئے تھے، اس کے علاوہ زخمی ہونے والوں میں بھی دو صحافی شامل ہیں۔
جمعہ کو ہلاک شدگان کی نماز جنازہ اور تدفین بھی کر دی گئی۔
ان بم دھماکوں میں 150 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے بیشتر اب بھی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
ادھر وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ حکومت اور اس کے تمام ادارے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ آج وہ (دہشت گرد) پاکستان کی سرزمین میں بھاگتے پھر رہے ہیں وہ چھپ کر حملے کرنے کی کیفیت میں ہیں۔۔۔ہمارے سویلین اور پریس کے ساتھی اس میں مارے گئے اس عمل میں ہمارے سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی مارے گئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹیوں پر موجود تھے۔‘‘
جمعرات کو پہلا دھماکا کوئٹہ کے مصروف علاقے باچا خان چوک پر ہوا جہاں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے چند گھنٹوں بعد شہر کے مصروف علاقے علمدار روڈ پر یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جن میں حکام نے 84 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ علمدا روڈ پر پہلا دھماکا خودکش تھا جس کے بعد کوریج کے لیے ذرائع ابلاغ کے نمائندے، امدادی کارکن اور پولیس کے اہلکار جب موقع پر پہنچے تو دوسرا دھماکا ہو گیا۔