پاکستان نے اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی خصوصی فورسز کے آپریشن سے حکومت پہلے سے آگاہ تھی۔
2 مئی 2011 کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں کیے جانے والے اس آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
امریکی صحافی سیمور ہرش نےگزشتہ ہفتے’لندن رویو آف بکس‘ میں شائع ہونے والی اپنی طویل رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے سکیورٹی ادارے نا صرف اس آپریشن سے آگاہ تھے بلکہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو 2006 سے پاکستان میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے بھی سیمور ہرش کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا کہ پاکستان کو اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے آپریشن کے بارے میں قبل از وقت مطلع کیا گیا تھا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات ہفتہ وار بریفنگ میں پہلی بار اس بارے میں باضابطہ سرکاری ردعمل میں کہا کہ صحافی سیمور ہرش کی خبر حقائق کے منافی ہے۔
قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ ’’ہم سیمور ہرش کی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کیے گئے مختلف دعوؤں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم پر قائم ہے۔ قاضی خلیل اللہ کے بقول دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کا جاری آپریشن ’ضرب عضب‘ اس بات کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کوشاں ہے اور پوری قوم اس پر یکجا ہے۔
سیمور ہرش نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ امریکہ کو بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں معلومات پاکستان کے ایک انٹیلی جنس افسر نے انعامی رقم کے عوض فراہم کی تھیں، جسے بعد میں واشنگٹن منتقل کر دیا گیا۔ اس کے برعکس وائٹ ہاؤس نے بن لادن کی ہلاکت کے بعد اپنے بیان میں یہ کہا تھا کہ امریکہ نے بن لادن کا کھوج اس کے قاصدوں کے ذریعے لگایا تھا۔
2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور پاکستان کے امریکہ کے ساتھ پہلے سے تناؤ کے شکار تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہو گئی تھی۔