اسلام آباد —
پاکستان میں خواتین کے قومی دن کے موقع پر ملک میں عورتوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے منگل کو خواتین کا قومی دن منایا گیا۔
اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا جن میں مختلف شعبوں میں پاکستانی خواتین کی کامیابوں کو اجاگر کیا گیا۔
پاکستان میں حقوق نسواں کی سرگرم تنظیموں کی طویل جد و جہد کے اعتراف میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے پہلی بار 12 فروری کو خواتین کا قومی دن قرار دے دیا اور اب قومی سطح پر اسے منایا جاتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں وضع کیے جانے والے قانون کے مطابق ایک عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں نصف تصور کی جاتی تھی جس کے خلاف ملک کی عورتوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور ان کی مسلسل کوششوں کے اعتراف میں سرکاری طور پر خواتین کا قومی دن منانے کا اعلان ہوا۔
پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ اس دن سول سوسائٹی اور حقوق نسواں کی سرگرم تنظمیں حکومت کو یہ احساس دلاتی ہیں اسے اس ضمن میں اپنی کوششوں کو جاری رکھنا ہے۔
خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستانی پارلیمان نے حالیہ برسوں میں حقوق نسواں کے حوالے سے اہم قانون سازی کی جو قابل ستائش ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے جہاں نئے قانون بنانا ضروری ہے وہیں ان قوانین پر موثر عملدرآمد بھی اتنا ہی اہم ہے اس لیے حکومت خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی کے لیے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔
اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا جن میں مختلف شعبوں میں پاکستانی خواتین کی کامیابوں کو اجاگر کیا گیا۔
پاکستان میں حقوق نسواں کی سرگرم تنظیموں کی طویل جد و جہد کے اعتراف میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے پہلی بار 12 فروری کو خواتین کا قومی دن قرار دے دیا اور اب قومی سطح پر اسے منایا جاتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں وضع کیے جانے والے قانون کے مطابق ایک عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں نصف تصور کی جاتی تھی جس کے خلاف ملک کی عورتوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور ان کی مسلسل کوششوں کے اعتراف میں سرکاری طور پر خواتین کا قومی دن منانے کا اعلان ہوا۔
پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ اس دن سول سوسائٹی اور حقوق نسواں کی سرگرم تنظمیں حکومت کو یہ احساس دلاتی ہیں اسے اس ضمن میں اپنی کوششوں کو جاری رکھنا ہے۔
خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستانی پارلیمان نے حالیہ برسوں میں حقوق نسواں کے حوالے سے اہم قانون سازی کی جو قابل ستائش ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے جہاں نئے قانون بنانا ضروری ہے وہیں ان قوانین پر موثر عملدرآمد بھی اتنا ہی اہم ہے اس لیے حکومت خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی کے لیے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔