ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ حمل ضائع کرائے جاتے ہیں جو ماؤں کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت کا سبب ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تولیدی صحت کے لئے کام کرنے والی تنظیم’’پاتھ فائینڈر‘‘ کے پاکستان میں سربراہ ڈاکٹر فہیم احمد نے کہا کہ اسقاط حمل کی اتنی زیادہ شرح ہونے کی وجوہات شعور کی کمی کے علاوہ ایک بڑی آبادی کو ضبط حمل کی اشیاء اور ادویات کی عدم دستیابی اورمعاشرے میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق پائی جانے والی مخالفت ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 270مائیں ہلاک ہو جاتی ہیں جن کی وجوہات میں اگرچہ کم عمری کی شادیاں، بچوں کی پیدائش میں وقفہ نا ہونا،تربیت یافتہ دائیوں سمیت علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان بھی شامل ہے لیکن ڈاکٹر فہیم کی رائے میں اگر مانع حمل کے طریقے اپنا کر خواتین اسقاط حمل سے بچ سکیں تو ان کی شرح اموات میں کم از کم دس فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
‘‘ماؤں کی شرح اموات بلوچستان میں سب سے زیادہ یعنی آٹھ سو، خیبر پختونخواہ میں 325، سندھ میں 280جبکہ پنجاب میں 222 ہے’’
تنظیم کے جائزے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں صرف تیس فیصد آبادی مانع حمل کے طریقے استعمال کر رہی ہے۔
عالمی تنظیم کے نمائندے کا کہنا تھا کہ گذشتہ 20 سالوں کے دوران حکومت کی طرف سے پیدائش میں وقفے کے رجحان کی اہمیت اور ضرورت سے متعلق شعور اجاگر کرنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں اس کا ایک حوصلہ افزا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ شرح پیدائش پانچ اعشاریہ تین فیصد سے کم ہو کر چار فیصد پر آگئی ہے۔
لیکن انہوں نے متنبہ کیا کے اسقاط حمل کی شرح نا صرف ابھی بھی تشویش ناک حد تک زیادہ ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
مذہبی اسکالر اور پشاور یونیوسٹی کے پروفیسر معراج الاسلام اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ماں اور بچے کی جان کے تحفظ کے لئے پیدائش میں وفقہ یا غیر مستقل ضبط حمل کے طریقے اپنانا کسی بھی طرح غیر اسلامی نہیں۔
پاتھ فائنڈر کی طرف سے ملک کے 26 اضلاع میں آگاہی کا ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت علماء کی شراکت سے لوگوں کو ضبط حمل اور پیدائش میں وقفے سے متعلق دینی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے گا۔