پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد حالیہ مہینوں میں اپنے وطن افغانستان واپس جا چکی ہے اور جو افغان واپس نہیں گئے وہ تاحال کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں ایک افغان بستی میں رہنے والے مشکلات کے باوجود خود کو اسی ملک میں زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں، اسی بستی کے رہائشی سید نظام الدین کہتے ہیں کہ اُن جیسے افغانوں کا اپنے وطن میں بھی کوئی ٹھکانا نہیں اس لیے یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔
’’جتنے بھی ادھر مہاجر رہتے ہیں، افغانستان میں کسی کا گھر نہیں ہے زمین نہیں ہے، کاروبار نہیں ہے تعلیم نہیں ہے تو ہم کس لیے جائیں آپ کو پتہ ہے تعلیم، کاروبار اور امن کے بغیر نہیں جا سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کو دسمبر 2017ء تک اپنے ملک واپس جانا ہو گا، تاہم افغان پناہ گزین اپنے ملک میں امن کی بحالی تک واپس نہیں جانا چاہتے۔
"اگر (ہمیں یہاں رہنے کے لیے مزید) وقت ملتا ہے تو بہت اچھا ہے۔ ۔۔۔۔ ہمیں تقریباً تیس سال ہو گئے ہیں ہماری داڑھی بھی سفید ہو گئی ہے۔‘‘
اگرچہ اپنے آبائی وطن میں بہت سی مشکلات اور سلامتی کے خطرات کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اپنے آبائی وطن لوٹ چکی ہے، لیکن اُن کے یہاں رہنے والے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ واپس گئے اُنھوں نے ایسا بخوشی نہیں کیا۔
"پہلے اتنا مشکل نہیں تھا، طور خم سرحد کے ذریعے جانے تو دیتے ہیں لیکن اس طرف سے بغیر پاسپورٹ کے نہیں آنے دیتے۔۔۔۔ کیونکہ ہمارے لوگ غریب بھی ہیں کم از کم پندرہ بیس ہزار پاسپورٹ پر لگ جاتا ہے وقت بھی لگ جاتا ہے۔‘‘
پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ بدامنی اور جنگ کے باعث وہ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اُن کے بقول اب تک حالات بدلے نہیں ہیں اور ایسی صورت میں وہ بخوشی کیسے واپس جا سکتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اُس نے ہر ممکن حد تک افغانوں کی میزبانی اور اُس کی یہ خواہش ہے کہ واپسی کا یہ عمل رضا کارانہ ہو تاکہ تین دہائیوں سے زائد عرصے تک پاکستانیوں نے جس انداز میں یہ میزبانی کی وہ رائیگاں نا ہو جائے۔