افغان امن کونسل کا ایک اعلیٰ سطحی وفد پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں پاکستانی حکام سے مذاکرات کے لیے آئندہ ہفتے اسلام آباد پہنچ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن کونسل کے وفد اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت خطے میں قیام امن کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی۔
سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کا حصہ بننے پر پاکستان کی آمادگی دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کو ظاہر کرتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ امن کونسل کے وفد اور پاکستانی حکام کے درمیان مذاکرات اہم ضرور ہیں لیکن فیصلہ کن نہیں کیوں کہ مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے اس عمل میں امریکہ سمیت دیگر اتحادی ممالک کی نمائندگی لازمی ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے وفد کی آئندہ ہفتے آمد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس دورے میں افغان وفد سے خطے کی موجودہ صورت حال اورعلاقے میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں پر تفصیل سے بات چیت کی جائے گی۔
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغان حکومت کے زیر قیادت مصالحتی عمل کی حمایت جاری رکھے گا اور اگر افغانستان نے مستقبل میں اس بارے میں کوئی مدد مانگی تو اُس میں بھی پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا، تاہم اُنھوں نے اس کردار کی وضاحت نہیں کی تھی۔
صدر حامد کرزئی نے ستمبر2010ء میں پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی افغان امن کونسل قائم کی تھی جس میں سابق جنگجو کمانڈروں کے علاوہ طالبان کے دور حکومت میں شامل بعض عہدیدار بھی اس کا حصہ ہیں۔ اس کونسل کے قیام کا مقصد ملک میں امن قائم کرنے کے لیے ایسے طالبان سے رابطے کرکے اُنھیں قومی دھارے میں شامل کرنا ہے جو افغانستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے تشدد کی راہ ترک کرنے پر آمادہ ہوں۔