رسائی کے لنکس

طورخم: پاک، افغان سرحد پیدل آمدورفت کے لیے کھول دی گئی


پاکستانی حکام نے چند روز قبل طورخم پر دونوں ملکوں کی سیکیورٹٰی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد بند ہونے والی سرحد کو پیدل آمدورفت کے لیے کھول دیا ہے۔ پاکستانی شہریوں کو افغانستان سے آنے جب کہ افغان شہریوں کو افغانستان جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر کے سرحدی قصبے لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے صحافی مہراب آفریدی کہتے ہیں کہ حکام نے سرحدی گزرگاہ کھولنے کا اعلان تو کر دیا، لیکن امیگریشن، نادرا اور دیگر سرکاری دفاتر میں اہلکاروں کی عدم موجودگی کے باعث سرحد پار کرنے کے خواہش مندوں کو طویل انتظار کرنا پڑا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اعلان کے بعد حکام نے جب سرحد کھلنے کا اعلان کیا تو سینکڑوں افراد امیگریشن اور نادرا کاؤنٹرز کے قریب پہنچ گئے، لیکن وہاں عملہ موجود نہیں تھا جس کے بعد جمعے کو صرف تین گھنٹے کے لیے سرحد پر آمدورفت ہو سکی۔

مہراب آفریدی نے تصدیق کی کہ طورخم بارڈر پیدل آمدورفت کے لیے کھول دی گئی۔ پاکستان سے صرف افغان شہری ہی افغانستان جاسکتے ہیں اور افغانستان سے صرف پاکستانی شہری پاکستان آسکتے ہیں۔ ان کے بقول نہ تو پاکستانی باشندے افغانستان جا سکتے ہے اور نہ افغان شہریوں کو پاکستان آنے کی اجازت ہے ۔

اتوار کو سرحد پر تعینات طالبان اہلکاروں نے پاکستانی امیگریشن اہلکاروں کی جانب سے افغان باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک کے باعث سرحدی گزر گاہ کو بند کر دیا تھا۔

بدھ کو پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کابل گئے تھے جہاں اُنہوں ںے طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم ملا عبدالغنی برادر سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔

بعدازاں طالبان حکومت نے جمعرات کو طورخم سرحد کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ افغان طالبان نے جمعرات کو صبح 10 بجے ہی سرحدی گزرگاہ کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیے کھول دیا مگر پاکستان کی جانب سے گیٹ جمعے کی سہ پہر تک بند رہا۔

سرحدی گزرگاہ کے بند ہونے سے طورخم میں سرحد کے دونوں جانب تجارتی سامان سے لدے ٹرکوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔

سرحد بند ہونے سے بڑی تعداد میں بچے اور خواتین لنڈی کوتل اور قبائلی ضؒع خیبر کے دیہات میں قائم مساجد میں راتیں گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

وائس آف امریکہ افغان سروس کے مطابق پاکستانی وفد نے کابل میں افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم ملا عبدالغنی برادر سے بھی ملاقات کی تھی۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی بدھ کو جاری بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی وفد نے کابل میں طالبان حکام سے ملاقات میں سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں نے داعش اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے درپیش خطرات پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق بات چیت کے دوران فریقین نے دہشت گرد تنظیموں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھانے پر اتفاق کیا۔

یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG