واشنگٹن —
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ ہفتوں میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد، جن میں ایک افغانی پولیس کا اہلکار بھی ہلاک ہوا تھا، کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سرحد برصغیر میں برطانوی راج کی میراث ہے جسے افغانستان نے کبھی نہیں مانا۔ ناقدین کا کہنا ہےکہ یہ برطانوی نو آبادیات کی تاریخ کا حصہ ہے جس کا سامنا اب انھیں کرنا پڑ رہا ہے۔
افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب پہاڑ گولیوں کی آوازوں سے گونج رہے ہیں۔ افغانستان نے حالیہ دنوں میں مزید سینکڑوں فوجیوں کو اپنی سرحد پرتعنیات کیا ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستان گوشتا کے سرحدی علاقے میں ایک فوجی باڑ تعمیر کر رہاہے جو کہ افغانستان کا علاقہ ہے۔
پاکستان کا ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ باڑ سرحد پر موجود ڈیورنڈ لائن پر لگائی جا رہی ہے جو برطانوی سفارتکار مورٹیمر ڈیورنڈ نے 1893 میں مقرر کی تھی۔ اس متنازعہ علاقے پر ایک کتاب کی مصنفہ مائرہ میکڈونالڈ کا کہنا ہےکہ بین الاقوامی سطح پر اس سرحد کو مانے جانے کے باوجود یہ سرحد متنازعہ رہی ہے۔
مائرہ میکڈونلڈ کا کہنا ہے، ’’افغانستان نے اس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کی حکومت نے بھی اس کو نہیں مانا۔ پاکستان ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ اس سرحد کو تسلیم کر لیا جائے جبکہ افغانستان نے ہمیشہ اسکو برطانوی نو آبادیات کی طرف سے ایک زبردستی سمجھا ہے۔‘‘
وسطی ایشیا کے تاریخ دان بیجان عمرانی کہتے ہیں کہ تاریخی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد نہیں بنانا چاہتا تھا بلکہ مقصد روس کے حملے سے بچانے کے لیے ایک بفر زون کا قیام تھا۔
بیجان عمرانی کے مطابق، ’’برطانوی قانون نے پہاڑوں کے دامن تک حد مقررکی لیکن ان پہاڑوں میں بسنے والے پشتون قبائل فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن نامی حد بندی کو مانتے تھے، اور اسی کے تحت سرحد کا تعین کیا گیا۔ یہ ریگولیشن موجودہ انسانی حقوق کے پیمانے سے میل نہیں کھاتی جس کی وجہ علاقہ ترقی نہیں کر پایا۔‘‘
مائرہ میکڈونالڈ کہتی ہیں کہ اس ریگولیشن کا علاقے پر بہت زیادہ اثر پڑا۔ ان کے الفاظ، ’’ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں تمام ڈرون حملے ہو رہے ہیں ۔ تو یہ علاقہ ایک نہایت مشکوک حیثیت رکھتا ہے جہاں کے لوگ آزادی سے نہیں بول سکتے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ اور شدید اسلامی جارحیت کی وجہ سے بھی یہ مسائل درپیش ہیں۔‘‘
برطانوی سلطنت کی پرانی سرحد پر تناؤ اس وقت پیدا ہوا جب برطانیہ کو اپنی وسیع نو آبادیات کو واضح کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کینیا کے تین ضعیف باشندوں نے برطانیہ کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ جیتا جس میں ان کا کہنا تھا کہ 1950 کے زمانے میں برطانوی راج میں ان پر تشدد کیا گیا تھا۔
وکلا ءکاکہنا ہےکہ کہ یہ مقدمہ دنیا بھر میں کئی اور دعوے داروں کو سامنے لا سکتا ہے جبکہ برطانوی جمہوریت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب پہاڑ گولیوں کی آوازوں سے گونج رہے ہیں۔ افغانستان نے حالیہ دنوں میں مزید سینکڑوں فوجیوں کو اپنی سرحد پرتعنیات کیا ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستان گوشتا کے سرحدی علاقے میں ایک فوجی باڑ تعمیر کر رہاہے جو کہ افغانستان کا علاقہ ہے۔
پاکستان کا ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ باڑ سرحد پر موجود ڈیورنڈ لائن پر لگائی جا رہی ہے جو برطانوی سفارتکار مورٹیمر ڈیورنڈ نے 1893 میں مقرر کی تھی۔ اس متنازعہ علاقے پر ایک کتاب کی مصنفہ مائرہ میکڈونالڈ کا کہنا ہےکہ بین الاقوامی سطح پر اس سرحد کو مانے جانے کے باوجود یہ سرحد متنازعہ رہی ہے۔
مائرہ میکڈونلڈ کا کہنا ہے، ’’افغانستان نے اس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کی حکومت نے بھی اس کو نہیں مانا۔ پاکستان ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ اس سرحد کو تسلیم کر لیا جائے جبکہ افغانستان نے ہمیشہ اسکو برطانوی نو آبادیات کی طرف سے ایک زبردستی سمجھا ہے۔‘‘
وسطی ایشیا کے تاریخ دان بیجان عمرانی کہتے ہیں کہ تاریخی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد نہیں بنانا چاہتا تھا بلکہ مقصد روس کے حملے سے بچانے کے لیے ایک بفر زون کا قیام تھا۔
بیجان عمرانی کے مطابق، ’’برطانوی قانون نے پہاڑوں کے دامن تک حد مقررکی لیکن ان پہاڑوں میں بسنے والے پشتون قبائل فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن نامی حد بندی کو مانتے تھے، اور اسی کے تحت سرحد کا تعین کیا گیا۔ یہ ریگولیشن موجودہ انسانی حقوق کے پیمانے سے میل نہیں کھاتی جس کی وجہ علاقہ ترقی نہیں کر پایا۔‘‘
مائرہ میکڈونالڈ کہتی ہیں کہ اس ریگولیشن کا علاقے پر بہت زیادہ اثر پڑا۔ ان کے الفاظ، ’’ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں تمام ڈرون حملے ہو رہے ہیں ۔ تو یہ علاقہ ایک نہایت مشکوک حیثیت رکھتا ہے جہاں کے لوگ آزادی سے نہیں بول سکتے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ اور شدید اسلامی جارحیت کی وجہ سے بھی یہ مسائل درپیش ہیں۔‘‘
برطانوی سلطنت کی پرانی سرحد پر تناؤ اس وقت پیدا ہوا جب برطانیہ کو اپنی وسیع نو آبادیات کو واضح کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کینیا کے تین ضعیف باشندوں نے برطانیہ کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ جیتا جس میں ان کا کہنا تھا کہ 1950 کے زمانے میں برطانوی راج میں ان پر تشدد کیا گیا تھا۔
وکلا ءکاکہنا ہےکہ کہ یہ مقدمہ دنیا بھر میں کئی اور دعوے داروں کو سامنے لا سکتا ہے جبکہ برطانوی جمہوریت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہی ہے۔