پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ مہینوں میں کئی ایک اعلیٰ سطحی رابطے ہوئے جنہیں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے لیے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق، آئندہ ہفتے ایک اعلیٰ سطحی افغان وفد اسلام آباد کا دورہ کرے گا جب کہ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ کابل بھی متوقع ہے۔
باضابطہ طور پر اس بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم، اسلام آباد اور کابل کے درمیان یہ رابطے ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب افغان حکومت کی طرف سے عید الفطر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کے اعلان کے بعد افغان طالبان نے عید پر تین روز کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنی عسکری کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں اس عارضی جنگ بندی کے لیے امریکہ اور پاکستان نے مل کر اپنا کردار ادا کیا ہے اور امریکہ کے محکمہ خارجہ کی ایک بریفنگ کے دوران پاکستان کے کردار کے بارے میں پوچھنے پر محکمہ خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار نے اسکا براہ راست جواب دینے کی بجائے کہا کہ "یہ افغان حکومت کا اقدام ہے جو افغان عوام کی خواہش کی ترجمانی کر رہی ہے اور یقیناً ہمیں امید ہے کہ طالبان اور دیگر تنظیمیں یا ایسے ممالک بھی محدود دورانیے کی جنگ بندی کی برابر حمایت کریں گے جن کا طالبان پر کسی قدر اثر و رسوخ ہے۔"
واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے طالبان کو عارضی جنگ بندی کی پیش کش سے پہلے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے فون پر ہونے والی بات چیت میں پاکستان امریکہ تعلقات اور افغانستان میں سیاسی مفاہمت اور دیگر امور پر گفتگو کی تھی۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان کے مسئلہ کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے ان کے بقول پاکستان کے کردار کو اہم خیال کرتا ہے۔ تاہم، یہ اسی صورت ممکن ہے جب اسلام آباد اور کابل کے درمیان مکمل اعتماد بحال ہو۔
بقول اُن کے، "ابھی حال میں افغانستان سے بھی یہ کوشش ہے کہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر کیا جائے اور آپ نے دیکھا ہوں گا کہ مختلف وفود کا تبادلہ ہو رہا ہے اور یا جو آئندہ دنوں میں آئیں گے اور پاکستانی فوج کے سربراہ افغانستان جا رہے ہیں یہ تمام چیزیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ پاکستان افغانستان سے اچھے تعلقات چاہتا تھا اب افغانستان بھی اس کا مثبت ردعمل دے رہا ہے۔ "
واضح رہے کہ حال ہی میں افغانستان کے قومی سلامتی مشیر حنیف اتمر کی سربراہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے وفد نے پاکستانی عہدیداروں سے افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن و استحکام پر عملدرآمد اور دیگر امور کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔
دریں اثنا، اطلاعات کے مطابق افغان سیکورٹی فورسز نے مشرقی صوبے ننگر ہار میں کارروائی کر کے 10 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور بتایا جاتا ہے ان میں سے پانچ پاکستانی عسکریت پسند تھے۔ عہدیداروں کے مطابق یہ عسکریت پسند سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ کےدوران ہلاک ہوئے۔