پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کے سبب دوطرفہ تجارت میں گزشتہ تین برس کے دوران تیزی سے کمی آئی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے قائم مشترکہ چیمبر آف کامرس نے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان عسکری ورکنگ گروپ کی تجویز میں اقتصادی یا معاشی کمیٹی کو بھی شامل کیا جائے۔
واضح رہے کہ اتوار کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں انسداد دہشت گردی سے متعلق پاکستان، افغانستان، چین اور تاجکستان کے مابین ہونے والی چار ملکی کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور افغان فوج کے سربراہان کے درمیان ایک الگ ملاقات ہوئی تھی جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے دونوں پڑوسی ممالک کی افواج کے درمیان ورکنگ گروپ کی تشکیل کی تجویز دی تھی۔
پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اعتماد کی بحالی میں مدد کے لیے مجوزہ ورکنگ گروپ میں اقتصادی کمیٹی کو شامل کیا جائے۔
’’افغانستان ہمارے لیے بہت بڑی منڈی ہے اور پچھلے تین سال سے ہماری افغانستان کو برآمدات کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔۔ ہماری ڈھائی سے تین ارب ڈالر کی دوطرفہ (سالانہ) تجارت ہوتی تھی جو کم ہو کر ایک ارب 80 کروڑ ڈالر تک رہ گئی ہے۔۔۔ دوطرفہ تجارت میں ایک ارب ڈالر کی کمی بہت بڑی گراوٹ ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کے سبب افغانستان اپنی تجارت کے لیے ایران کا راستہ استعمال کر رہا ہے۔
زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک سیاسی اور عسکری کشیدگی کے معاملات کو تجارت اور کاروباری روابط سے الگ رکھیں۔
واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر بھی پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن قائم ہے لیکن نومبر 2015ء کے بعد سے اس کمیشن کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔
گزشتہ ماہ اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر اور پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات میں پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس رواں ماہ منعقد کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی، لیکن تاحال اس بارے میں کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے مطابق دونوں ملک تاریخی طور پر ایک دوسرے کے تجارتی شراکت دار رہے ہیں اور اگر تعلقات میں بہتری آتی ہے تو دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔