رسائی کے لنکس

پاک افغان باہمی تجارت کا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا: تاجر


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

تاجروں، صنعتکاروں اور کاروباری شخصایات کا کہنا ہے کہ دونوں حکومتوں کو تجارت سے متعلق رکاوٹوں کو دور کرنے میں فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ سات سالوں میں تجارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس کا سالانہ حجم دو ارب ڈالر سے زائد ہوگیا ہے۔

تاہم تاجروں، صنعتکاروں اور کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ مختلف مشکلات کی وجہ سے اسے آئندہ سال تک 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف پورا نا ہو پائے گا۔

اسلام آباد میں پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام کانفرنس میں شرکا کا کہنا تھا کہ دنوں حکومتوں کو تجارت سے متعلق رکاوٹوں کو دور کرنے میں فوری اقدامات کرنا ہوں گے جن میں ان کے بقول اسلام آباد اور کابل کے درمیان ’’ناقص‘‘ ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ بھی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خیبرپختونخواہ چیمبر آف کامرس کے صدر زاہد شنواری کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کو جلد بازی میں تیار کیا گیا اور اس میں موجود انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے دونوں ممالک کی تاجر برادری کے تعلقات متاثر ہورہے ہیں۔ اس لئے اس معاہدے میں فوری ترامیم ہونی چاہیئں۔

’’ایران 5 سو ڈالر لیتا ہے، ہم کچھ چارج نہیں کرتے، ٹرانزٹ کا رستہ ہم سے 900 کلومیٹر زیادہ ہے مگر پھر بھی 70 فیصد ٹرانزٹ ٹریڈ وہاں چلا گیا ہے۔ پروسیسنگ میں ہم وقت بہت ضائع کرتے ہیں۔ جب ان سے باہمی تجارت کی بہتری کی بات کرو تو وہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ایشوز اٹھا لیتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان سے بھارت کی طرح آزاد تجارت کا معاہدہ کرنا چاہیے۔ ’’ٹریڈ بیلنس ہمارا اچھا ہے۔ 2 ارب تیس کروڑ میں سے افغانستان سے درآمدات صرف تیس کروڑ ہیں تو یہ ہمارے فائدے میں ہے تو ہم کیوں نہیں کرتے؟‘‘

پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ٹرانزٹ ٹریڈ خالد فرید مانیکا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے راستے افغانستان کے لیے رسد کو بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بروئےکار لایا گیا ہے جس سے ٹرانزٹ ٹریڈ میں رواں سال اضافہ ہوا ہے۔

’’اس وقت ہمارے پاس 30 ہزار ضمانتیں پڑی ہیں تو وہ (افغان تاجر) آتے ہی نہیں۔ تو ہم سے ملیں گے تو ان سے پیسے لیں یا انہیں واپس کریں۔ ابھی تک ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے انہوں نے کوئی ضابطے ہی نہیں بنائے۔ ہمیں بھی ان سے بہت مسائل ہیں۔‘‘

وفاقی وزیر برائے صنعت عباس خان آفریدی کا معاہدوں اور فیصلوں پر عمل درآمد میں تاخیر پر کہنا تھا۔

’’جب پالیسی بنانے کی بات آتی ہے تو ہم باہر ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ 40 سال سے دونوں ملکوں کے عوام پستے چلے آرہے ہیں۔ آج ہم جو کہیں گے اسے لکھ لیا جائے گا مگر اس پر عمل کب ہوگا یہ اللہ ہی جانے۔‘‘

پاکستان میں افغان سفارت کار جانان موسیٰ زئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مضبوط و گہرے تجارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنا افغانستان کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے اور افغانستان کی نئی حکومت بھی اسی پالیسی پر کاربند رہے گی۔ تاہم سیکورٹی سے متعلق دونوں ملکوں کے بارے میں پائے جانے والے خدشات پر ان کا کہنا تھا۔

’’ہمارے خیال میں پاکستان کاروبار کے لیے اتنا ہی محفوظ ہے جتنا کہ بین الاقوامی کرکٹ کے لئے اور ایسی ہی صورتحال افغانستان کی ہے کہ میڈیا اس کی جو تصویر دکھاتا ہے وہ ہوسکتا ہے کہ حقیقت ہو مگر حقیقت کا حقیر سا حصہ ہے۔ افغانستان اس سے کئی درجے مختلف ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں تجارتی تعلقات میں فروغ نا صرف دونوں ممالک بلکہ خطے میں امن و خوشحالی کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستانی عہدیدار اور تاجر افغانستان کے رستے وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کی خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
XS
SM
MD
LG