اسلام آباد —
پاکستان میں آئندہ انتخابات کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی اتحاد کو مضبوط کرنے میں کوشاں ہے تو بعض تنظیموں نے اپنے منشور اور پروگرامز کا بھی اعلان کرتے ہوئے غیر اعلانیہ اپنی انتخابی مہم بھی شروع کردی ہے۔
تاہم احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مئی میں متوقع انتخابات میں اپنی شرکت کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
اس فرقہ کی نمائندہ تنظیم جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی ترجمان سلیم الدین نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتکو میں کہا کہ اگر احمدیوں کے لیے علیحدہ انتخابی فہرستوں کی شرط ختم نا کی گئی تو آئندہ انتخابات میں ان کی برادری کے لوگ حصہ نہیں لیں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شرط احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔
’’ووٹ کا حق اگر آپ نے دینا ہے تو پاکستانی شہری کی حیثیت سے دیں جیسا دوسروں کو حاصل ہے۔ ووٹر فارم میں مذہب سے متعلق کوائف حاصل کرنے کا کیا مقصد ہے۔ اس کا انتخابات سے کیا تعلق۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا احمدیوں کے لیے علیحدہ ووٹر فہرستوں سے اس فرقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے سیکیورٹی کے خدشات میں اضافہ ہو جائے گا۔
’’یہ فہرستیں ہر جگہ آویزاں ہوتی ہیں جس میں نام پتہ ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ تو پہلے ہمیں انتہا پسندوں سے خطرہ لاحق ہے تو اس سے تو ہم مزید خطرے میں پڑ جائیں گے۔‘‘
سلیم الدین کے مطابق احمدیوں نے اس خطرے کے پیش نظر 2008 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں احمدی فرقہ سے متعلق ان کے بقول امتیازی قوانین کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں اور حکومت سے بھی احمدیوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے ملک میں مخلوط انتخابی نظام متعارف کرایا مگر 2002 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے صرف احمدیوں پر یہ شرط عائد کردی گئی کہ وہ انتخاب میں بحیثیت ووٹر یا امیدوار حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس بیان حلفی جمع کریں گے کہ وہ احمدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی علیحدہ سے انتخابی فہرست مرتب کی جائے۔
سیریم کورٹ میں احمدیہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کنور ادریس نے اس صدارتی فرمان کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بنچ میں سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ علیحدہ انتخابی فہرستیں احمدیوں کے لیے تضحیک آمیز ہے اور انہیں قومی دھارے سے باہر رکھنے کے مترادف ہے۔
پاکستانی آئین کے تحت احمدی ایک غیر مسلم فرقہ ہے اور عدالت اعظمیٰ کے ایک فیصلے میں انہیں اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے اور ان میں اذان دینے سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ انتخابات سے متعلق احمدی فرقہ پر عائد شرط کا مقصد اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھنا نہیں۔
’’جھگڑا یہ ہے کہ وہ پاکستان کے آئین و قانون اور پارلیمان کے اس فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں جس میں انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ وہ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ تو اسی وجہ سے فساد سے بچنے کے لیے یہ شرط عائد کی گئی۔ اگر کوئی بھی احمدی یا قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرتا ہے تو میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس کو اسی فہرست میں شامل کیا جائے جس میں دوسرے پاکستانی ہیں۔‘‘
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک کے آئین کے تحت تمام مذہبی اقلیتوں کے مساوی حقوق ہیں اور ان کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیا جاتے ہیں۔
تاہم احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مئی میں متوقع انتخابات میں اپنی شرکت کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔
اس فرقہ کی نمائندہ تنظیم جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی ترجمان سلیم الدین نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتکو میں کہا کہ اگر احمدیوں کے لیے علیحدہ انتخابی فہرستوں کی شرط ختم نا کی گئی تو آئندہ انتخابات میں ان کی برادری کے لوگ حصہ نہیں لیں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ شرط احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔
’’ووٹ کا حق اگر آپ نے دینا ہے تو پاکستانی شہری کی حیثیت سے دیں جیسا دوسروں کو حاصل ہے۔ ووٹر فارم میں مذہب سے متعلق کوائف حاصل کرنے کا کیا مقصد ہے۔ اس کا انتخابات سے کیا تعلق۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا احمدیوں کے لیے علیحدہ ووٹر فہرستوں سے اس فرقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے لیے سیکیورٹی کے خدشات میں اضافہ ہو جائے گا۔
’’یہ فہرستیں ہر جگہ آویزاں ہوتی ہیں جس میں نام پتہ ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ تو پہلے ہمیں انتہا پسندوں سے خطرہ لاحق ہے تو اس سے تو ہم مزید خطرے میں پڑ جائیں گے۔‘‘
سلیم الدین کے مطابق احمدیوں نے اس خطرے کے پیش نظر 2008 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں احمدی فرقہ سے متعلق ان کے بقول امتیازی قوانین کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں اور حکومت سے بھی احمدیوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہیں۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے ملک میں مخلوط انتخابی نظام متعارف کرایا مگر 2002 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے صرف احمدیوں پر یہ شرط عائد کردی گئی کہ وہ انتخاب میں بحیثیت ووٹر یا امیدوار حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس بیان حلفی جمع کریں گے کہ وہ احمدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی علیحدہ سے انتخابی فہرست مرتب کی جائے۔
سیریم کورٹ میں احمدیہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کنور ادریس نے اس صدارتی فرمان کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بنچ میں سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ علیحدہ انتخابی فہرستیں احمدیوں کے لیے تضحیک آمیز ہے اور انہیں قومی دھارے سے باہر رکھنے کے مترادف ہے۔
پاکستانی آئین کے تحت احمدی ایک غیر مسلم فرقہ ہے اور عدالت اعظمیٰ کے ایک فیصلے میں انہیں اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے اور ان میں اذان دینے سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ انتخابات سے متعلق احمدی فرقہ پر عائد شرط کا مقصد اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھنا نہیں۔
’’جھگڑا یہ ہے کہ وہ پاکستان کے آئین و قانون اور پارلیمان کے اس فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں جس میں انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ وہ اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ تو اسی وجہ سے فساد سے بچنے کے لیے یہ شرط عائد کی گئی۔ اگر کوئی بھی احمدی یا قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرتا ہے تو میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس کو اسی فہرست میں شامل کیا جائے جس میں دوسرے پاکستانی ہیں۔‘‘
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک کے آئین کے تحت تمام مذہبی اقلیتوں کے مساوی حقوق ہیں اور ان کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیا جاتے ہیں۔