انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنیسٹی انٹرنیشنل‘ نے پاکستان میں جولائی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل انسانی حقوق کے علمبرداروں، فعال کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے دیگر افراد کی پکڑ دھکڑ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے فوری طور پر ایسے اقدام بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں ہونے والی بے جا گرفتاریوں، گمشدگیوں اور پر امن مظاہروں کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان حکام اُن افراد کے خلاف شدید کارروائیاں کر رہے ہیں جو حکومت کی مخالفت کرتے ہیں، چاہے یہ لوگ سڑکوں اور گلیوں میں احتجاج کر رہے ہوں یا ٹیلی ویژن پر حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوں، یا پھر اخباروں اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہوں‘‘۔
تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ پر مختلف سماجی کارکنوں اور صحافیوں نے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت صحافتی اداروں اور آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ بالکل درست ہے۔
رپورٹ پر معروف صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ ’’صحافیوں کے لیے یہ ایک بہت مشکل وقت ہے۔ صحافتی اداروں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ نہ صرف اداروں بلکہ صحافتی تنظیموں پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے‘‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری بیان کے بعد پی ایف یو جے نے جو بیان جاری کیا وہ انہیں نامعلوم دباؤ کے باعث واپس لینا پڑا۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ملک کے خلاف کام کرنے کا الزام لگا کر صحافیوں کی تصاویر لگائیں لیکن پی ایف یو جے کو بیان واپس لینا پڑا۔ ایسے وقت میں جب ملک میں نئے انتخابات ہونے والے ہیں اس میں ایسا ماحول آئینی اداروں کے لیے ٹھیک نہیں۔ نگران حکومت نہ ہونے کے برابر ہے۔ نگران سیٹ اپ صرف سیاست دانوں کو بدنام کرنے کے لیے متعارف کروایا گیا اور ان کی کوئی رٹ نہیں ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر پروویز ہودبھائی نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ ’’بڑے پیمانے پر لوگوں کو چپ کروایا جا رہا ہے۔ اخبارات پر ایسی پابندی ہم نے گذشتہ 60 سالوں میں نہیں دیکھی۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسے لوگوں سے میں واقف ہوں جن کو دھمکیاں ملیں کہ خاموش ہوجاؤ ورنہ خاموش کروادیے جاؤ گے۔ یہ سب بہت تکلیف دہ عمل ہے‘‘۔
پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ ’’یہ واضح ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ پاکستان کی سمت کا تعین کریں گے۔ جب آزادی اظہار نہ ہو اور خرابیوں پر روشنی نہ ڈالی جاسکے تو ماحول منفی ہوجاتا ہے۔ جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف ان کا ہے اور وہ ہی محب وطن ہیں تو ان کے لیے کہوں گا کہ یہ ملک دو سو ملین لوگوں کا ہے جو محب وطن ہیں، باشعور ہیں، ان کو ڈرانا دھمکانا کسی طور درست نہیں۔ عدم برداشت اور رواداری نہ ہونے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا‘‘۔
سماجی کارکن فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت پی ٹی ایم کے مظاہروں پر پابندی ہے۔ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔ میڈیا اگر ایک بیانیہ دے تو ٹھیک وگرنہ بھگتنا پڑے گا۔ اس میں شک نہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں کرپٹ ہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ(ن) کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے خلاف کچھ نہیں۔ اگر کرپٹ ہیں اور سب کے خلاف کارروائی ہو تو اسے درست کہا جا سکتا ہے۔ لیکن، ایک جماعت کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ درست نہیں‘‘۔
نگران حکومت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’’نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ منصفانہ انتخابات کرائیں۔ حالیہ دنوں میں زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکلوایا جانا ان کی جانبداری ثابت کرتا ہے اور الیکشن کی انجنئیرنگ کا عمل جاری ہے۔ ہمیں توقع نہیں کہ نگران حکومت اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرسکے گی‘‘۔