پاکستان میں کرونا کے باعث مالی نقصان اٹھانے والے کم آمدنی کے حامل لوگوں کے لیے چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ کی مدد ایک ایسے ملک میں جہاں بیشتر معیشت غیر دستاویزی ہے یعنی اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، مستحق لوگوں تک کس طرح پہنچائی جائے گی۔
یہ ایک بڑا سوال ہے۔ دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ رقم ان لوگوں کے لیے واقعی کافی ہوگی جو اپنے چھوٹے چھوٹے کاروباروں سے بیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ کما کر اپنی گزر بسر کرتے تھے، جو لاک ڈاؤن کے سبب اب بالکل بند پڑے ہیں۔
ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے، وزیرِ اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے بتایا ہے کہ اس کے لیے لیبر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ مزدوروں اور مختلف علاقوں میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں یا محنت مزدوری کرنے والوں اور ریڑھیاں لگانے والوں کے مقامی انتظامیہ کے پاس موجود ریکارڈ سے استفادہ کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ لوگ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے اور یوں کم از کم 80 فیصد مستحقین تک رسائی ہو جائے گی جن کو یہ مدد دی جا سکے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اسکے علاوہ لوگوں کے لئے راشن کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے اور مخیر حضرات بھی اس سلسلے میں آگے آ رہے ہیں۔
جب سوال کیا گیا کہ اتنی بڑی وبا کے پیش نظر پاکستان میں طبی سہولتیں اور اسپتال ناکافی ہیں۔ حکومت اس سے نمٹنے کے لئے کیا کر رہی ہے؟ تو، انہوں نے کہا بالکل ایسا ہی ہے۔ لیکن ہمیں ورثے میں یہی کچھ ملا ہے اور اپنے اقتدار کے دوران جس کو شروع ہوۓ بہت کم وقت ہوا ہے محدود وسائل میں حکومت جو کر سکتی ہے کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ انسانی زندگی بچانا ہر چیز پر مقدم ہے اور وہی اولین ترجیح ہے۔
ندیم افضل چن نے مخالفین کے اس الزام کو غلط قرار دیا کہ حکومت نے اس معاملے میں توجہ دینے میں تاخیر کی؛ اور کہا کہ بالکل شروع ہی سے حکومت اس جانب متوجہ ہے۔ ریویو کمیٹیوں کی روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہوتے ہیں اور صورت حال پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چین واحد ملک ہے جو پاکستان کی سب سے زیادہ مدد کر رہا ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی مدد کریں، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک تو اپنی بڑی معیشتوں کے سبب اپنے حالات ٹھیک کر سکتے ہیں۔
تاہم، کچھ پاکستانی تجزیہ کار اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ممتاز سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو امداد دینے کا حکومت نے اعلان کیا ہے اس میں شفافیت کا کیا معیار ہوگا۔ کیا واقعی وہ مستحقین تک پہنچ سکے گی۔ یا وہی صورت حال ہوگی جو خود حکومت کے اعلانات کے بقول، بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کی ہوئی کہ مبینہ طور پر با اثر اور غیر مستحق افراد اس سے استفادہ کرتے رہے۔
سلمان عابد نے مزید کہا کہ پاکستان کی مجموعی معیشت میں غیر دستاویزی معیشت کا بڑا کردار ہے اور اپنے اپنے علاقوں اور گھروں میں کام کرکے پچیس سے تیس ہزار روپئے ماہانہ کما کر لوگ اپنے خاندانوں کے پیٹ پال رہے تھے جو لاک ڈاؤن کے سبب بالکل بند ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ''تین ہزار روپئے ماہانہ میں وہ کیا کریں گے؟ روٹی کھائیں گے۔ مکان کا کرایہ چکائیں گے یا بچوں کی دوا دارو کریں گے؟ اتنی سی رقم سے وہ کیا کچھ کر سکیں گے''۔
سلمان عابد نے کہا کہ ''رہی بات مخیر حضرات کی جانب سے مدد کی تو سفید پوش مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں چاہے گی۔‘‘