پاکستانی فوج کے سربراہ نے سیاسی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہونے کی اطلاعات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس حوالے سے زیر گردش قیاس آرائیوں کو ’’گمراہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
’’فوج نے ملک میں جمہوری نظام کی حمایت کی ہے اور کرتی رہے گی۔‘‘
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کی طرف سے جمعہ کو جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ جنرل کیانی نے قومی سلامتی سے متعلق معاملات کو صرف اور صرف معیار کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ان سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
’’تمام دوسرے خیالات سے قطع نظر، قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘
فوج کے سربراہ نے ان خیالات کا اظہار افغان سرحد سے ملحقہ مہمند اور کرم ایجنسیوں میں جمعرات کو اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دے کر کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کوئی بھی شخص ’’شہیدوں کے خون کی قیمت نہیں لگا سکتا ہے‘‘۔
’’پاکستانی فوج میں شامل مرد و خواتین اپنے حلف کے عین مطابق پاکستان کے دفاع کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کی حمایت اور دعاؤں کے ساتھ ایسا ہی کرتے رہیں گے۔‘‘
جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ فوج اپنے ’’آئینی فرائض اور ذمہ داریوں‘‘ سے بخوبی واقف ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جب امریکی قیادت کو بھیجے گئے متنازع میمو یا خط پر عسکری اور سیاسی قیادت نے متضاد موقف اختیار کر رکھا ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نجی تقریب اور بعد ازاں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فوج اور اس کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو غیر معمولی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اُن کے بقول پیپلز پارٹی کی حکومت کا بوریا بسترا گول کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔
بظاہر میمو اسکینڈل پر فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے حکومتی موقف سے متصادم موقف اختیار کرنے پر وزیر اعظم نے ان ریاستی اداروں کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ پارلیمان کو جواب دہ ہیں۔
’’ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے۔ تمام ادارے پارلیمان کو جواب دہ ہیں اور کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں۔‘‘
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت نے ایبٹ آباد آپریشن اور مہمند ایجنسی میں نیٹو حملے کے تناظر میں فوج کی بھرپور حمایت کی جب کہ اقتصادی مشکلات کے باوجود مسلح افواج کے افسران اور اہلکاروں کی تنخواہیں بھی دوگنی کی گئیں۔