پاکستان میں انسانی حقوق کی معروف کارکن اور وکلا برادری کی بااثر رہنما عاصمہ جہانگیر کی طرف سے اس انکشاف کے بعد کہ اُنھیں قتل کی دھمکیاں ملی ہیں، مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان الزامات کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
نیو یارک میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے خفیہ اداروں کے بعض عناصر پر قتل کی یہ سازش تیار کرنے کے الزامات کی تحقیقات کر کے ذمہ داران کا اُن کےعہدوں سے قطع نظر احتساب کیا جائے۔
تنظیم کے پاکستان میں ڈائریکٹر علی دایان حسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کے لیےعاصمہ جہانگیر کی خدمات کا عالمی طور پر اعتراف کیا جاتا ہے اور وہ پاکستان کی انتہائی قابل احترام شخصیات میں سے ایک ہیں۔
’’(عاصمہ) جہانگیر کو دی جانے والی دھمکی اُن تمام لوگوں کے لیے دھمکی کے مترادف ہے جو پاکستان میں انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔‘‘
عاصمہ جہانگیر نے چار جون کو مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں انکشاف کیا تھا کہ ’’انتہائی قابل وثوق‘‘ ذریعے سے اُنھیں معلوم ہوا ہے کہ سلامتی سے متعلق سرکاری اداروں میں انتہائی اعلٰی سطح پر ان پر قاتلانہ حملہ کرانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول وہ یہ معلومات اس لیے افشا کر رہی ہیں کیونکہ اُنھیں خدشہ ہے کہ وہ قتل ہو سکتی ہیں اور اس کا الزام اُن کے خاندان کے ایک رکن پر لگایا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عاصمہ جہانگیر نے سلامتی سے متعلق سرکاری اداروں پر کڑی تنقید کی۔
’’(اس منصوبے کی) بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ ہماری عسکری قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی قوتِ برداشت بہت کم ہو چکی ہے۔ وہ اپوزیشن نہیں دیکھ سکتے، تنقید نہیں دیکھ سکتے ان کو عادت پڑ گئی ہے یہاں پر حکمرانی کرنے کی۔ جو لوگ اس پر آواز بلند کرتے ہیں ان کو (وہ) اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں، مگر ان کو یہ نہیں پتہ کہ یہاں پر پوری کی پوری عوام ہی اس کے خلاف ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے یہاں اپنی بالادستی قائم کریں۔‘‘
عاصمہ جہانگیر نے اپنے تحفظ کے لیے حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
’’میں نے (حکومت سے) رابطہ کیا ہے، وکلاء نے رابط کیا اور جو دونوں حکومتیں ہیں صوبائی اور مرکزی انھوں نے مجھے کچھ تو سکیورٹی فراہم کی ہے لیکن ابھی بھی وہ (ناکافی) ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ عاصمہ جہانگیر کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
’’عاصمہ جہانگیر ہمارے ملک کا بہت معروف اور محترم نام ہیں۔ اس ملک کی جمہوری جد و جہد میں ان کی اور ان کے خاندان کا بڑا اہم حصہ ہے۔ ان کو دھمکیاں دی گئی ہیں تو پنجاب حکومت کو فوری طور پر ان کو سکیورٹی فراہم کرنی چاہیئے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے بھی ان کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔‘‘
ملک کی صف اول کی غیر سرکاری تنظیم، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، نے بھی ایک بیان میں عاصمہ جہانگیر کی زندگی کو خطرے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
’’عاصمہ جہانگیر کو قتل کرنے کی افشا کردہ سازش ایک تو ٹارگٹ کلنگ کے ماحول میں اختلاف رائے کرنے والوں کی نعشوں کو ٹھکانے لگانے جیسے حالات کی وجہ سے سنگین ہے اور اس حقیقت نے بھی ان دھمکیوں کو تشویش ناک بنا دیا ہے کہ ان کے پیچھے مراعات یافتہ ریاستی اداروں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔‘‘
اس تنظیم کے قیام کا اعزاز بھی عاصمہ جہانگیر کو حاصل ہے اور وہ ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں جب کہ پاکستان میں مفت قانونی مدد فراہم کرنے والی پہلی تنظیم ’اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ‘ کی بنیاد بھی اُنھوں نے رکھی۔
انسانی حقوق کے فروغ کے اپنے 30 سالہ کیئریر کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے وہ پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنیسوں پر مستقل تنقید کرتی آئی ہیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستان بالخصوص شورش زدہ بلوچستان صوبے میں ’’لاپتا افراد‘‘ کے معاملے پر قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے کردار پر بھی وہ کڑی نکتہ چینی کرتی آئی ہیں کیونکہ مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے ان واقعات میں سرکاری ایجنیساں ملوث ہیں۔