پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں سرکاری افسران پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور حالیہ ہفتوں میں پولیس کے علاوہ مختلف اضلاع کے اعلیٰ افسران کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
جمعہ کو ضلع خاران کے اعلیٰ انتظامی افسر ڈپٹی کمشنر عبدالرزاق دلاوری ایک حملے میں محفوظ رہے، تاہم عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ان کے دو سرکاری محافظ ہلاک جب کہ پانچ اہلکار زخمی ہو گئے۔
ڈپٹی کمشنر کی حفاظت پر مامور لیویز اہلکاروں کی جوابی کارروائی سے ایک حملہ آور بھی مارا گیا۔
ضلع خاران کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نوروز خان جوہر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کوئٹہ سے ایران جانے والی قومی شاہراہ پر راچیل کے علاقے میں چھپے مسلح افراد کی اطلاع پر ڈپٹی کمشنر عبدالرازاق دلاوری موقع پر جا رہے تھے کہ وہاں گھات لگائے مسلح افراد نے اُن کے قافلے پر خود کار ہتھیاروں سے اندھا دُھند فائرنگ شروع کر دی۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد علاقے میں پولیس، لیویز اور فرنٹئیر کور کے دستے روانہ کیے گئے جو وہاں سرچ آپریشن میں مصروف ہیں۔
واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ یا تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی نہ ہی پولیس اور انتظامیہ کے دعوﺅں کی آزاد ذرائع نے تصدیق ہوئی ہے۔
اس شورش زدہ صوبے میں ایک عشرے سے زائد عر صے سے پولیس، ایف سی، لیویز اور انتظامی افسران پر جان لیوا حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درجنوں اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ریاست کے خلاف برسر پیکار بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے کے لیے فرنٹئیرکور اور پولیس کے فوج کی طرف سے تربیت یافتہ جوان بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں جس کی بدولت صوبے کے بیشتر اضلاع میں امن قائم ہو گیا ہے اور عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے قبائلی عمائدین کے توسط سے کو ششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
ان کوششوں کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں دو درجن سے زائد بلوچ عسکریت پسندوں نے ریاست کی عملداری کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اور حکام کے مطابق دو درجن سے زائد افراد سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔