کوئٹہ —
پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان ایک عشرے سے زائد عرصے سےشورش کا شکار چلا آ رہا ہے جہاں بعض بلوچ عسکری تنظیمیں صوبے کے وسائل پر مکمل اختیار اور بعض پاکستان سے علیحدگی کے لیے مسلح کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبے کی لیویز فورس کو مزید فعال بنانے کے لیے اب فوج لیویز اہلکاروں کی تربیت کرے گی۔
بلوچستان میں صوبائی اور وفاقی لیویز ایک نیم قبائلی فورس ہے جس میں تمام اہلکار مقامی ہیں اور صوبے کے اکثر علاقوں میں یہی فورس فرائض انجام دے رہی ہے۔
اکبر درانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اس وقت صوبائی لیویز کی تعداد ساڑھے چودہ ہزار جبکہ وفاقی لیویز کی ساڑھے تین ہزار ہے۔ ان کے بقول اس تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیویز فورس کی استعداد کاربڑھانے کے لیے بھی مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
’’دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لیویز کے لیے نئے ہتھیار بھی خریدے جارہے ہیں اور انھیں ہم فوج سے تربیت دلوا رہے ہیں، ویسے تو انھیں فرنٹیئر کور نے ٹریننگ کرواتی ہے لیکن اب خاص طور پر چار پانچ گریژن میں انھیں تربیت فراہم کی جائے گی جو کہ نو جون سے شروع ہو رہی ہے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ لیویز میں شامل زیادہ تر اہلکار مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے نوابوں اور سرداروں کی سفارش پر بھرتی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اپنے قبائلی سرداروں کی بات بہت اہم اور حتمی ہوتی ہے۔
صوبے میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے علاوہ اغوا برئے تاوان، فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔
تاہم صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ امن و امان بحال کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے عزم اور کوششوں سے صوبے کے حالات ماضی کی نسبت بہتر ہوئے ہیں۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی میں بھی واضح فرق دیکھنے میں آ رہا ہے۔
’’آپ دیکھ لیں چاہے پولیس ہو، لیویز ہو، ایف سی ہو وہ ہر مقام پر موجود ہوتے ہیں اور ایکشن میں آتے ہیں۔ ۔ ۔ اب اگر انھیں پتا چلتا ہے کہ کسی جگہ پر شرپسند ہیں تو وہ انتظار نہیں کرتے کہ وہ خود جا کے ان کو قانون کے تحت باقاعدہ طور گرفتار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان پر فائر ہوتا ہے تو یہ بھرپور جوابی کارروائی بھی کرتے ہیں۔‘‘
بلوچستان میں امن و امان بحال رکھنے کے لیے یہاں کے قبائلی رہنماؤں کی حمایت کو بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ناراض بلوچ قبائلی سرداروں سے مذاکرات کی کوشش کی تھی جب کہ موجودہ وزیراعلیٰ بھی اس ضمن میں کاوشیں کر چکے ہیں لیکن تاحال یہ پیش قدمیاں بارآور ثابت نہیں ہوئی ہیں۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبے کی لیویز فورس کو مزید فعال بنانے کے لیے اب فوج لیویز اہلکاروں کی تربیت کرے گی۔
بلوچستان میں صوبائی اور وفاقی لیویز ایک نیم قبائلی فورس ہے جس میں تمام اہلکار مقامی ہیں اور صوبے کے اکثر علاقوں میں یہی فورس فرائض انجام دے رہی ہے۔
اکبر درانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اس وقت صوبائی لیویز کی تعداد ساڑھے چودہ ہزار جبکہ وفاقی لیویز کی ساڑھے تین ہزار ہے۔ ان کے بقول اس تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیویز فورس کی استعداد کاربڑھانے کے لیے بھی مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
’’دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لیویز کے لیے نئے ہتھیار بھی خریدے جارہے ہیں اور انھیں ہم فوج سے تربیت دلوا رہے ہیں، ویسے تو انھیں فرنٹیئر کور نے ٹریننگ کرواتی ہے لیکن اب خاص طور پر چار پانچ گریژن میں انھیں تربیت فراہم کی جائے گی جو کہ نو جون سے شروع ہو رہی ہے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ لیویز میں شامل زیادہ تر اہلکار مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے نوابوں اور سرداروں کی سفارش پر بھرتی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اپنے قبائلی سرداروں کی بات بہت اہم اور حتمی ہوتی ہے۔
صوبے میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے علاوہ اغوا برئے تاوان، فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔
تاہم صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ امن و امان بحال کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے عزم اور کوششوں سے صوبے کے حالات ماضی کی نسبت بہتر ہوئے ہیں۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی میں بھی واضح فرق دیکھنے میں آ رہا ہے۔
’’آپ دیکھ لیں چاہے پولیس ہو، لیویز ہو، ایف سی ہو وہ ہر مقام پر موجود ہوتے ہیں اور ایکشن میں آتے ہیں۔ ۔ ۔ اب اگر انھیں پتا چلتا ہے کہ کسی جگہ پر شرپسند ہیں تو وہ انتظار نہیں کرتے کہ وہ خود جا کے ان کو قانون کے تحت باقاعدہ طور گرفتار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان پر فائر ہوتا ہے تو یہ بھرپور جوابی کارروائی بھی کرتے ہیں۔‘‘
بلوچستان میں امن و امان بحال رکھنے کے لیے یہاں کے قبائلی رہنماؤں کی حمایت کو بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ناراض بلوچ قبائلی سرداروں سے مذاکرات کی کوشش کی تھی جب کہ موجودہ وزیراعلیٰ بھی اس ضمن میں کاوشیں کر چکے ہیں لیکن تاحال یہ پیش قدمیاں بارآور ثابت نہیں ہوئی ہیں۔