رسائی کے لنکس

بلوچستان میں قیام امن کے لیے سنجیدہ اقدامات زیر غور


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سلامتی کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان روابط کو موثر بنایا جارہا ہے

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مرکزی شہر کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں میں بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی وارداتوں میں پولیس کے اعلیٰ افسران سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ان واقعات کے تناظر میں اتوار کو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ سے ملاقات کی جس میں سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں چودھری نثار نے کہا کہ حکومت صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔

ضلع بولان میں گزشتہ منگل کو شدت پسندوں نے پنجاب جانے والی بسوں سے 13 مسافروں کو اغوا کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اس علاقے میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔

ضلع بولان کے ڈپٹی کمشنر وحید شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دو روز سے جاری کارروائیوں میں آٹھ مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جب کہ علاقے میں کارروائی آئندہ چند روز تک جاری رہے گی۔

جمعرات کو کوئٹہ میں ایک پولیس انسپکٹر کی نماز جنازہ کے موقع پر ہونے والے خودکش بم حملے میں اعلیٰ پولیس افسران سمیت 30 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ جمعہ کو عید کی نماز کے بعد ایک مسجد کے باہر ہونے والی فائرنگ میں بھی 10 افراد مارے گئے۔

امن و امان کے قیام کے لیے حکومتی ترجیحات اور بیانات کے برعکس ناقدین کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنے میں تاخیر اور صوبے میں حکومت سازی کے دیگر آئینی امور پر عدم توجہی بظاہر شدت پسندی کی روک تھام کی کوششوں کے ثمر بار ہونے میں مانع ہے۔

صوبے کے سابق ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تاحال صوبائی کابینہ تشکیل نہ دیے جانے سے بھی بہت سے معاملات پر حکومتی گرفت کمزور دکھائی دیتی ہے۔

’’گورنر، وزیر اعلیٰ اور کابینہ یہ تین جز ہوتے ہیں صوبائی حکومت کے ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو حکومت کی آئینی حیثیت برقرار نہیں رہتی۔‘‘

لیکن حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ سلامتی کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان روابط کو موثر بنایا جارہا ہے جب کہ اتوار کو وفاقی وزیرداخلہ نثار علی خان نے بھی قومی سلامتی کی پالیسی وضع کرنے میں تاخیر پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 13 سال سے پاکستان میں کسی بھی حکومت نے اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیا لیکن ان کی حکومت اس پالیسی کے تشکیل میں نہایت سنجیدہ ہے۔

’’اگر صرف سکیورٹی پالیسی کےاعلان کی بات ہوتی تو میں کل ہی کر دیتا، اس حکومت کو کام کرنے دیں تاکہ صرف پالیسی کا صرف اعلان ہی نہ ہو اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔‘‘

امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔

دریں اثناء سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کا از خود نوٹس لیا جس کی سماعت 15 اگست کو عدالت عظمیٰ کی کوئٹہ رجسٹری میں ہوگی۔
XS
SM
MD
LG