کانچ کی چوڑیاں ہر خاص و عام میں ہمیشہ سے مقبول رہی ہیں۔ مگر یہ چوڑیاں کسی کلائی تک پہنچنے سے پہلے جن ہاتھوں سے بن کر گزرتی ہیں ان کے لیے اس کی کھنک کوئی کشش نہیں رکھتی۔
حیدرآباد کی تنگ و تاریک گلیوں میں اپنے خاندان کے ساتھ ہائش پذیر خاتون نسرین نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ چوڑیوں کے جڑاؤ میں ہی گزارا ہے اور اب ان کے بچے بھی یہی کام کر تے ہیں ۔ موسم سرد ہو یا گرم نسرین اور ان کے بچوں کے لیے ایک سا ہی رہتا ہے۔ سخت گرمی اور آگ کی تپش میں سارا دن بیٹھ کر بھی یہ خاندان روزانہ صرف ڈھائی تین سو روپے ہی کماتا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا چوڑی بنانا آسان ہے، ایک تلخ مسکراہٹ نسرین کے چہرے پر آن بستی ہے۔ وہ کہتی ہیں ” آسان کہاں اتنا دکھی ہے ۔ چوڑی پہننے والوں کو کیا معلوم ۔ ان کے لیے تو یہ ہاتھوں کی زینت ہے لیکن بنانے والوں کے تو ہاتھ کٹ جاتے ہیں۔“
یہ کہانی صرف نسرین کی نہیں بلکہ حیدرآباد کے ہر اس گھر کی ہے جہاں چوڑیوں کا کام ہوتا ہے۔ سندھ کے اس قدیم تاریخی شہر میں قائم چوڑیوں کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتی ہے اور افرادی قوت کے حوالے سے جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی گھریلو صنعت تصورکی جاتی ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پاکستان کے کم آبادی والے اس شہر میں چار لاکھ سے زیادہ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں جن میں بڑی تعداد یعنی اسی فیصد خواتین ہیں جبکہ 50 ہزار سے زائد بچے بھی اس صنعت سے وابستہ ہیں۔
ریحان یوسف زئی حیدرآباد چوڑی ورکرز یونین کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں چوڑیوں کی35 فیکٹریوں اور سولہ سو کے قریب ہول سیل کی دکانوں سے حاصل ہونے والی یومیہ آمدنی دو سے تین کروڑ ہے۔ مگر اس کے باوجود اس صنعت میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ ” گھروں میں جو عورتیں اور بچے کام کر رہے ہیں انھیں اجرت انتہائی کم مل رہی ہے جس کی وجہ سے بچے اسکول نہیں جاسکتے۔لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جو لوگ پہلے سو روپے کا کام کرپاتے تھے اب 25 یا 30 روپے کا کررہے ہیں جس کی وجہ سے گھروں میں فاقہ کشی پھیل رہی ہے ۔ ایک گھر میں جب آٹھ یا دس افراد مل کرسارا دن چوڑی جوڑتے ہیں تب جا کر ان کا گزارا ہوتا ہے۔“
یونیسیف کے 2002 ء میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق تنگ گلیوں اور کچے مکانات میں گھنٹوں آگ کے بہت قریب یا چراغ کے لو کی گرمائش کے ساتھ بند پنکھوں میں بیٹھ کر گرمی اور حبس کے ماحول میں کام کرنے سے یا پھر میناکاری کے ذریعے کیمیکل کا مسلسل استعمال اور کٹائی کے دوران شیشے کے ذرات انگلیوں میں پیوست ہوجانے کی وجہ سے علاج نہ ہونے پر یہاں ہر خاندان میں ایک فرد موجود ہے جسے ٹی بی، دمہ ، نابینا پن یا پھر جوڑوں کے درد کی بیماری ہو۔ ریحان کہتے ہیں کہ” علاج و معالجہ کی سہولیات انھیں میسر نہیں اور نہ ہی کوئی چھٹی کا دن۔ حکومت کو چاہئیے کہ انھیں رجسٹر کرے تاکہ انھیں سہولیات مل سکیں ۔“
ریحان کہتے ہیں کہ ان خواتین کے لیے اس صنعت کا روشن پہلو صرف یہی ہے کہ انھیں کام کے لیے گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا اس کے علاوہ اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ جو لوگ ان سے کام کرواتے ہیں ان میں انسانیت ہی نہیں۔ اگر یہاں موجود فیکٹریاں اپنی زکوٰة ہی نکالیں اور انہیں دیں تو ان مزدوروں کو کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں۔
گھروں میں چوڑیاں بنانے والی خواتین بتاتی ہیں کہ وہ ایک دن میں چوڑی کے 60یا 70 توڑے بناتی ہیں۔ ایک توڑے میں 350 چوڑیاں ہوتی ہیں۔ایک توڑے کی قیمت پہلے ساڑھے چار روپے تھی جو اب پانچ روپے کر دی گئی۔ دوسری جانب بازار میں نت نئے ڈیزائن کا ایک درجن چوڑی کاسیٹ 50 روپے سے لے کر ڈھائی ہزار تک کا دستیاب ہے۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ چوڑیوں کی بنائی کی قیمت اتنی ہو جائے کہ انھیں ان کی جائز محنت ملے۔
ریحان کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو اپنے حقوق نہ ملنے کی ایک وجہ سرمایہ داروں اور سیاسی جماعتوں کا اثرورسوخ ہے جس کے باعث مزدوروں کے لیے کام کرنے والی ٹریڈ یونینز اب موثر نہیں رہیں لیکن ان کے نزدیک ان مسائل کے حل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں غریب خود اپنے ہی طبقے سے ہی مخلص نہیں ۔
وہ کہتے ہیں ” ہم ان لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو ہمارے جیسا پانی پیتا ہے نہ ہماری طرح کا کھانا کھاتا ہے اور نہ اسے موسم کی تپش کا اندازہ ہوتا ہے۔جب یہ حالت ہو کہ ہم ان لوگوں سے مسائل حل کرنے کی توقع کریں جو خود مسائل پیدا کر رہے ہیں تو ہم ناکام رہیں گے۔ جس دن غریب آدمی اپنی کلاس سے مخلص ہوگیااور پہچان گیا کہ کون میرا ہمدرد ہے اور کون نہیں تو حالات بدل جائیں گے۔“