پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کو وسیع کر کے اس کی نگرانی کے لیے پارلیمان کی سکیورٹی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
اپنی والدہ اور پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر کی آٹھویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وفاقی حکومت مبینہ طور پر قومی لائحہ عمل کو اپنے حریفوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
" یہ وہ قومی لائحہ عمل نہیں ہے جس پر سب سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا یہ نون لیگ (حکمران جماعت مسلم لیگ) کا قومی لائحہ عمل ہے جس کا ہدف سیاسی حریف ہیں"۔
انہوں نے قومی لائحہ عمل پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آج تک کوئی بھی بڑا دہشت گرد یا اس کا سہولت کار نہیں پکڑا گیا اور ان کے بقول آرمی پبلک اسکول میں ہلاک ہونے والے بچو ں کے والدین بھی ابھی تک فریاد کنا ں ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قومی لائحہ عمل کی سب سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے منظوری دی تھی تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف چھوٹے صوبوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں داعش اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ افغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے اثرات پاکستان پر بھی پڑتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بلاول بھٹو کی طرف سے عائد الزمات کو رد کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا کہ قومی لائحہ عمل سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
نجی ٹی وی چینلز سے گفتگو میں ان کہنا تھا کہ قومی لائحہ عمل بلاتفریق کامیابی سے جاری ہے اور ان کے بقول اسے سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے خود بھی تسلیم کیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو ایک ایسے وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب سندھ اور وفاق کے درمیان صوبے میں رینجرز کی تعیناتی میں توسیع کے معاملے پر شدید اختلافات ہیں۔