رسائی کے لنکس

سندھ: قرآن کی مبینہ بے حرمتی پر لاش نذر آتش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پولیس کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ قتل میں ملوث مزید افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں تاہم متعلقہ پولیس اسٹیشن کے عملے کے سات اہلکاروں کوغفلت برتنے اور موثر کارروائی نہ کرنے پر معطل کر کے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں مبینہ طور پر توہین قرآن کے الزام پر ایک شخص کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلانے کے واقعے میں ملوث 30 افراد کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

ضلع دادو کے سینیئر سپریٹنڈنٹ پولیس عثمان غنی نے ہفتے کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعہ کو طلوع آفتاب سے قبل سیتا نامی گاؤں میں لگ بھگ 200 مقامی رہائشیوں نے پولیس تھانے پر دھاوا بول کر ملزم کو پہلے مار پیٹ کر ہلاک کیا اور پھر اس کی لاش کو آگ لگا دی۔
’’انہوں (حملہ آوروں) نے حوالات کو توڑا اور اس شخص کو مارتے ہوئے تھانے سے باہر لے گئے، اسے اتنا پیٹا گیا کہ وہ مر گیا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مرنے والے شخص کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی تاہم اس پر الزام تھا کہ وہ جمعرات کی رات گاؤں کی مسجد میں داخل ہوا اور وہاں موجود قرآن کے نسخوں کو جلانا شروع کر دیا، جس پر گاؤں کے رہائشیوں کی شکایت پر اسے تحویل میں لے لیا گیا۔
لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا کیوں کہ وہ ملزم مسجد میں اکیلا ہی تھا۔

عثمان غنی کے بقول اس نا معلوم شخص کی ذہنی حالت بظاہر درست نہ تھی۔

انہوں نے بتایا کہ مبینہ طور پر توہین قرآن کا ارتکاب کرنے والے ملزم کے قتل میں ملوث مزید افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں تاہم متعلقہ پولیس اسٹیشن کے عملے کے سات اہلکاروں کوغفلت برتنے اور موثر کارروائی نہ کرنے پر معطل کر کے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

’’موبائل فونز پر بننے والی وڈیوز سے ہم نے تمام حملہ آوروں اور اس قتل میں ملوث افراد کی نشاندہی کرلی ہے اور بہت جلد وہ بھی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں بظاہر کسی تنظیم کا عمل دخل نہیں۔

اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسس کے شعبہ نفسیات کے سربراہ پروفیسر رضوان تاج کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کسی شرارت یا سازش کا شاخسانہ ہوتے ہیں اور ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا خاتمہ صرف تعلیم سے ہی ممکن ہے۔

’’شدت پسندی چاہے تھوڑے سے لوگوں میں ہو، اس کا اثر کافی ہوتا ہے۔ تعلیم ہی سے اسے نمٹا جا سکتا ہے۔ جتنا لوگوں کو اپنے اور دنیا کے بارے میں پتہ چلے گا یہ خود ہی ختم ہوتی جائے گی۔ ہمارے مدرسوں میں دنیا کے بارے میں فراہم کی جانے والی معلومات تنگ نظری پر مبنی ہوتی ہے۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیموں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ توہین مذہب سے متعلق قانون پاکستان میں اکثر خاندانی دشمنیوں میں مخالفین سے انتقام لینے یا مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون میں ترامیم کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔

رواں سال ایک پاکستانی عدالت نے ایک کم سن عیسائی لڑکی رمشاء کو توہین قرآن کے مقدمے سے بری کیا جب یہ انکشاف ہوا کہ مقامی امام مسجد نے اس مقدمے کو مضبوط بنانے کے لیے شواہد میں رد و بدل کی تھی۔

متنازع توہین مذہب کا قانون پاکستان میں ایک حساس معاملہ ہے اور اس میں ترامیم کی حمایت کرنے کی پاداش میں گزشتہ سال حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما اور پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ان کے اپنے پولیس محافظ نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیاتھا۔

ذیلی عدالت سے سزائے موت کا فیصلہ آنے کے بعد سلمان تاثیر کے قتل ممتاز قادری نے اعلیٰ عدالت میں رحم کی اپیل کر رکھی ہے۔
XS
SM
MD
LG