رسائی کے لنکس

کمسن عیسائی لڑکی کی ذہنی صحت عمرسے کم


وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ نابالغ ہونے کی وجہ سے رمشا کا مقدمہ پاکستان میں بچوں کے لیے وضع کردہ قوانین کے تحت چلے گا۔

پاکستانی طبی ماہرین نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ توہین اسلام کے الزام میں گرفتارایک عیسائی لڑکی نابالغ ہے جس کی ذہنی حالت طبعی عمر سے مطابقت نہیں رکھتی۔

وکیل صفائی طاہر نوید چودھری نے منگل کواسلام آباد کی ایک ماتحت عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں رمشا مسیح کے طبی معائنے اور تجزیاتی رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اُن کی عمر تیرہ اور چودہ سال کے درمیان ہے، جبکہ اُس ذہنی حالت طبعی عمر سے کہیں کم ہے۔

اس عیسائی لڑکی کا تعلق دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں مہرآبادی نام کی ایک بستی سے ہے جہاں رواں ماہ کے اوائل میں مسلمان اہل محلہ نے اُس پر قرانی آیات پر مشتمل اوراق کو نذر آتش کرنے کا الزام لگاکراحتجاجا اُس کے گھر کا گھیراؤ کیا تھا۔

اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے وہاں پہنچ کرمظاہرین کو منتشرکردیا تاہم بعد میں مظاہرین کے دباؤ میں آکراس کمسن عیسائی لڑکی کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج کر کے اُسے اڈیالہ جیل منتقل کردیا۔

ملزمہ کے وکیل نے بتایا کہ اُنھوں نے ضمانت پر رمشا کورہا کرنے کی درخواست بھی عدالت میں جمع کرارکھی ہے جس کی آئندہ سماعت جمعرات کو ہوگی اور انھیں آمید ہے کہ ان کی موکلہ کو رہائی مل جائے گی۔

وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ نابالغ ہونے کی وجہ سے رمشا کا مقدمہ پاکستان میں بچوں کے لیے وضع کردہ قوانین کے تحت چلے گا۔

ایک کمسن عیسائی لڑکی پرتوہین مذہب کے الزمات اور اُس کی گرفتاری پر مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔

ان تنظیموں کی طرف سے توہین اسلام سے متعلق قانون میں اصلاحات کا مطالبہ بھی دہرایا جارہا ہے کیونکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون میں مجرم کے لیے سزائے موت کی شق ہی دراصل انتہاپسند ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرکے اقلیتوں کو دھمکاتے آئے ہیں۔

عیسائیوں کی ایک بااثر نمائئندہ تنظیم ’ورلڈ کونسل آف چرچز یا ڈبلیو سی سی نے سترہ ستمبرکو اس معاملے پر بحث کے لیے جنیوا میں ایک دو روزہ اجلاس بھی طلب کیا ہے جس میں منتظمین کے بقول پاکستان میں مذہب اسلام کی توہین سے متعلق قانون میں اصلاحات کا مطالبہ بھی دہرایا جائے گا۔

اسلام آباد میں پیر کو پاکستانی علما و مشائخ نے مسیح برادری کی نمائندگی کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رہنماؤں کے ساتھ مل کررمشا کے معاملے پر ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا جس میں شرکاء نے واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات دونوں مذاہب کے نمائندوں کی زیر نگرانی کرانے کا مطالبہ کیا۔

مشترکہ اعلامیے میں رمشا پرغلط الزامات لگانے اورلوگوں کے جذبات کو بھڑکانے والوں کے کڑے احتساب کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

رمشا جس بستی میں رہتی تھی وہاں آباد دیگر عیسائی خاندان بھی خوف کے مارے علاقہ چھوڑ گئے ہیں جن میں سے بعض نے اسلام آباد کے جی نائن سیکٹر کے ایک رہائشی علاقے کے قریب درختوں کو کاٹ کر وہاں نئی بستی تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مگر اہل محلہ اس کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ یہ بھی واضح نہیں کہ ان عیسائی خاندانوں کو کپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ایسا کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے یا نہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق تحقیقاتی اداروں نے متعلقہ حکام کو مشورہ دیا ہے کہ رمشا جیل میں زیادہ محفوظ ہے کیونکہ ضمانت پر رہائی کی صورت میں نہ صرف اس لڑکی بلکہ اس کے خاندان پر انتہا پسندوں کی طرف سے حملے کا خدشہ ہے۔
XS
SM
MD
LG