انٹرنیٹ پر ویب سائٹس بشمول سوشل میڈیا پر توہینِ مذہب سے متعلق مواد کی نگرانی اور اسے بلاک کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
یہ بات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل شاہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو انٹرنیٹ پر توہینِ مذہب سے متعلق مواد کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارتِ داخلہ کی طرف سے بنائی گئی اس کمیٹی میں پی ٹی اے، وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) اور وزارت کے نمائندے شامل ہوں گے۔
ان کے بقول پی ٹی اے نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ 25 لوگوں پر مشتمل ایک ٹیم بھی تعینات کر دی ہے اور اب تک ان کے ادارے نے انٹرنیٹ پر 13 ہزار ایسے لنکس کو بلاک کیا ہے جو توہینِ مذہب پر مبنی مواد کے حامل تھے۔
ڈاکٹر اسماعیل شاہ نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر توہینِ مذہب پر مبنی مواد تصاویر، تحاریر، آڈیو اور وڈیو کی شکل میں اپ لوڈ کیا جاتا رہا ہے اور اس کی نشاندہی صرف مشینیوں سے کرنا ممکن نہیں۔ لہذا ان کے بقول ان کے ادارے نے ماہرین کی ایک ٹیم اس کام کے لیے متعین کی ہے۔
پاکستان میں توہینِ مذہب ایک حساس معاملہ ہے اور حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ پر توہینِ مذہب سے متعلق مواد کی موجودگی سے حکومت سمیت سماجی حلقے خاصی تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال ایسے مواد کی روک تھام کے لیے سخت ہدایات جاری کر چکے ہیں اور ایک روز قبل ہی انھوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کو مادر پدر آزادی نہیں دی جائے گی۔
حالیہ مہینوں میں متعدد افراد کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر توہینِ مذہب پر مبنی مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ان خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ توہینِ مذہب کی آڑ میں حکومت کے ناقدین کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے لیکن حکومتی عہدیدار ان خدشات کو مسترد کرتے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی قائمہ کمیٹی کی رکن اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی خاتون قانون ساز زہرہ ودود فاطمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے صرف ایسی ویب سائٹس اور اکاؤنٹس کی نشاندہی کر کے انھیں بلاک کرتا ہے جب کہ کسی شخص کی گرفتاری اور اس پر مقدمے سے قبل ایک کمیٹی اس معاملے کا جائزہ لیتی ہے۔
"پوری ایک کمیٹی ہے جو بیٹھتی ہے اور جانچ پڑتال کرتی ہے اور پھر وہ رپورٹ کرے گی اگر ان کے خلاف کوئی کیس دائر کرنا ہوا تو، تاکہ معلوم کیا جا سکے اس (شخص) نے یہ کام کیا بھی ہے یا نہیں۔۔۔ سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے بھی لوگ بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں اور جس کے نام سے ہو رہا ہوتا ہے وہ بے چارہ پھنس جاتا ہے تو اس کو بہت احتیاط سے دیکھنا ہوتا ہے تاکہ کوئی معصوم نہ پکڑا جائے۔"
وفاقی وزیرداخلہ کا بھی کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کو مدنظر رکھا جائے گا لیکن اس کی آڑ میں کسی کو بھی منافرت اور توہین کی اجازت نہیں دی جائے گی۔