رسائی کے لنکس

جرمنی کی باضابطہ درخواست بھی مسترد


President Barack Obama kisses first lady Michelle Obama during their dance at the Commander-in-Chief Inaugural Ball at the Washington Convention Center, January 21, 2013.
President Barack Obama kisses first lady Michelle Obama during their dance at the Commander-in-Chief Inaugural Ball at the Washington Convention Center, January 21, 2013.

پاکستان نے بون میں افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی جرمنی کی باضابطہ درخواست مسترد کر دی ہے۔

بدھ کی شام جرمن چانسلر انگیلا مرکِل نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اُن سے بون کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی شرکت اس اجلاس کو بامقصد بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔

دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بعد اسلام آباد میں جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ جرمن چانسلر نے اصرار کیا اجلاس میں پاکستان کی نشست خالی نہیں ہونی چاہیئے اور وزیر اعظم گیلانی اپنی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو نمائندگی کے لیے بھیج دیں۔

’’وزیر اعظم نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن چانسلر کی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکیں گے۔‘‘

جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکِل
جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکِل

سرکاری بیان کے مطابق انگیلا مرکل نے پاکستانی سفیر کو بون کانفرنس میں شرکت کی اجازت دینے پر بھی اصرار کیا جس پر وزیر اعظم گیلانی نے انھیں بتایا کہ وہ یہ معاملہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی پر چھوڑتے ہیں اور وہ جو بھی فیصلہ کرے گی اُس کے بارے میں جرمن چانسلر سے رابطہ کر کے وہ خود اُنھیں مطلع کریں گے۔

اس سے قبل وزیر اعظم نے بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اپنی سلامتی اور خودمختاری خطرات سے دوچار ہو گئی ہے اس لیے وہ کسی دوسرے ملک میں امن کی کوششوں میں تعمیری کردار ادا نہیں کر سکتا۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور افغان صدر حامد کرزئی بھی پاکستانی رہنماؤں پر بون کانفرنس کے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کے حوالے سے زور دے چکے ہیں۔

بدھ کو کراچی میں ایک تقریب کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے ہرممکن تعاون کیا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کا استحکام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔

’’مگر جب افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی ہے اس لیے احتجاجاً ہم وہاں (جرمنی) نہیں جانا چاہتے۔ ہمیں ملک کی سالمیت اور دفاع کے لیے کام کرنا ہے۔ اگر ہم آپ کی سالمیت کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور ہمیں آپ کے لیے بون جانا ہے تو ہماری سلامتی کی کون گارنٹی کرے گا۔‘‘

وزیر اعظم نے بتایا کہ امریکہ سے شمسی ائربیس خالی کروانے کے لیے پاکستانی فوجی حکام کی طرف سے باضابطہ طور پرخط بھیجا جا چکا ہے جس میں 11 دسمبر تک اس فوجی تنصیب کو خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔

دریں اثناء سینیٹ کی خارجہ امور کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم سیف اللہ خان نے بدھ کو ایک خصوصی اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ نیٹو کی سپلائی کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نا کھولا جائے۔

’’ہماری تو یہ ہی سفارش ہے کہ (نیٹو کی سپلائی لائنز) بالکل نہیں کھلنی چاہیئے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات اور تعاون کا ضابطہ کار پارلیمنٹ کے سامنے آئے اور پارلیمان کی منظوری کی بعد (اس معاملے) کو دیکھا جائے۔‘‘

اسلام آباد میں ایک تقریب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیر دفاع احمد مختار نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل پر پابندی سے امریکی اور نیٹو افواج متاثر نہیں ہوں گی۔

’’جو ان کے ٹرک ہیں، کنٹینرز ہیں ان کو ہم جانے نہیں دیں گے، یہ اپنا دوسرا راستہ ڈھونڈیں تو اُن کو دوسرے میں کیا ملتا ہے پہاڑیاں ملتی ہیں، وسطی ایشیائی ریاستوں کی چوٹیاں ملتی ہیں جہاں پر ابھی بھی برف پڑی ہوئی ہے۔ یہ جا ہی نہیں سکتے، یہ اُن کی مجبوری ہو گی کہ یہ ہم سے معافی مانگیں گے اور تب ہم ان کو معاف کریں گے جب قوم کہے گی۔‘‘

XS
SM
MD
LG