رسائی کے لنکس

نگران وزیراعظم کا معاملہ ہنوز حل طلب


پارلیمانی کمیٹی کا آخری اجلاس جمعہ کو ہوگا اور اس میں فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں نگران وزیر اعظم کے لیے چار تجویز کردہ نام الیکشن کمیشن کو بھیج دیے جائیں گے جو کہ اگلے دو دنوں میں اس پر حتمی فیصلہ کرے گا۔

پاکستان میں نگران وزیراعظم کی تقرری سے متعلق سیاست دانوں کا مشاورتی اجلاس جمعرات کو نتیجہ خیر ثابت نا ہو سکا بے تاہم ان کی جانب سے بات چیت خوشگوار ماحول میں ہونے اور کچھ پیش رفت کے دعوے ضرور کیے گئے۔

آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کے ایک بند کمرے میں تقریباً چار گھٹنے عبوری وزیراعظم کے لیے مجوزہ ناموں پر تبادلہ خیال کیا اور اراکین کے مطابق اس عہدے کےلئے ہر امیدوار کی موزونیت پر تفصیلی بحث کی اور چند امیدواروں کے بارے تحفظات پر ممبران کی طرف سے وضاحتیں بھی پیش کی گئیں۔

تاہم اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں انہوں نے ان امیدواروں کے نام یا ان کے بارے میں تحفظات بتانے سے گریز کیا بلکہ چند رہنماؤں نے صحافیوں کو اس بارے میں کریدنے سے باز رہنے کی درخواست بھی کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں سیاسی اتحاد کے کمیٹی کے اراکین اس بات پر زور دیتے رہے کہ یہ معاملہ کمیٹی احسن طریقے سے طے کر لے گی اور اسے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

سابق وزیر قانون اور پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق نائیک نے کہا کہ’’ہم ممبر سمجھتے ہیں کہ یہ چار نام کسی ایک پارٹی کے نہیں ہیں۔ ان ناموں میں سے جو کوئی ملک و قوم کے لیے بہتر ہوگا اسے چنا جائے گا۔‘‘

تاہم میاں نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن سردار یعقوب ناصر نے عندیہ دیا کہ نگران وزیر اعظم کی تقرری کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس بھی جا سکتا ہے۔

’’الیکشن کمیشن بھی ہم نے بنایا ہے تو یہ سارا عمل سیاست دانوں کا ہے اس لیے جہاں بھی حل ہو ملک و قوم کے لیے بہتر ہو۔‘‘

پارلیمانی کمیٹی کا آخری اجلاس جمعہ کو ہوگا اور اس میں فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں نگران وزیر اعظم کے لیے چار تجویز کردہ نام الیکشن کمیشن کو بھیج دیے جائیں گے جو کہ اگلے دو دنوں میں اس پر حتمی فیصلہ کرے گا۔

دریں اثناء جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت کی ان کی جماعت سے نواز لیگ کو منتقلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے ایسا بحران پیدا کیا گیا۔

’’ہمیں شکایت یہ ہی ہے کہ اسمبلیوں کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اور ان ہی کی تحت قائد حزب اختلاف کی تقرری ہوتی ہے لیکن یہاں تو وہ کام بھی عدالت نے اپنے ذمے لے لیا ہے تو کل پھر قائد ایوان بھی وہی چنیں گے۔‘‘

جمیعت علماء اسلام (ف) گزشتہ دو سال سے بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت رہی مگر صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے تین روز قبل پیپلز پارٹی اور حکمران اتحاد میں شامل دیگر چند جماعتوں کے قانون سازوں کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ نے اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت نواز لیگ کو سونپ دی۔
XS
SM
MD
LG