پاکستان کے سابق چیف جسٹس ناصرالملک پاکستان کے نگران وزیراعظم نامزد ہو گئے ہیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں، جس میں حکمران جماعت مختلف اداروں کے کردار پر سوال اٹھا رہی ہے اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر کڑی نکتہ چینی کر رہی ہیں، شفاف اور آزادانہ عام انتخابات کے حوالے سے نگران وزیر اعظم کی ذمہ داریوں میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
نگران وزیر اعظم کا کیا کردار ہوتا ہے اور الیکشن سسٹم میں اصلاحات کے بعد ان کا کردار کیا ہو گا۔ یہ سوال جب وائس آف امریکہ نے سابق اٹارنی جنرل پاکستان اور صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن منیر اے ملک سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ نگران وزیر اعظم کا مینڈیٹ صرف یہ ہی ہے کہ وہ شفاف اور منصفانہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کا ہاتھ بٹائیں۔ اس کے علاوہ حکومت کا روزانہ کا کانتظام چلائیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے سر براہ احمد بلال محبو ب نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت نگران حکومت کے اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ حکومت کے روز مرہ کے انتہائی اہم کام نمٹاتے رہیں اور انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ نئے الیکشن ایکٹ کے تحت تو وہ الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر سرکاری ملازمین کا ٹرانسفر بھی نہیں کر سکتے۔ اس لحاظ سے نگران وزیر اعظم اور نگران حکومت کا کرداراب صرف رسمی حد تک ہی رہ گیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بعض حلقوں میں یہ خدشات موجود ہیں کہ نگران حکومت کسی بھی بہانے سے الیکشن ملتوی کر کے اپنا دورانیہ بڑھا سکتی ہے تاکہ من پسند انتخابی نتائج کا راستہ ہموار کیا جاسکے ان کے نزدیک ان خدشات میں کتنا وزن ہے تو منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ نہ تو ماضی میں کوئی نگران وزیر اعظم انتخابات پر اثر انداز ہوا ہے اور نہ ہی موجودہ نگران وزیر اعظم اثر انداز ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ نگران حکومت اس دائرے میں رہتی ہےجو آئین نے متعین کیے ہیں اور سپریم کورٹ نے جس کی تشریح کی ہے اور یہ کہ ناصر الملک سے کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ وہ کسی آئینی یا غیر جمہوری اقدام کا حصہ بنیں گے۔
کیا نگران وزیر اعظم کے پاس ملک کو کسی ایمر جینسی سے نمٹنے کے لئے وہی اختیارات حاصل ہیں جو عام وزیر اعظم حاصل ہوتے ہیں؟ تو اس سوال پر بلال محبوب نے کہا کہ اختیارات تو وہی ہیں جو آئین میں لکھے ہیں لیکن ایمر جینسی میں وہ ان اختیارات کو استعمال کر سکتے ہیں جو کسی بھی عام وزیر اعظم کو حاصل ہوتے ہیں۔
منیر اے ملک نے کہا کہ اگر انتخابات نوے دن کے اندر نہیں ہو پاتے یا کوئی ایمرجینسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو نگران حکومت کو سپریم کورٹ سے اس مسئلے کے حل کےلیے رجوع کرنا پڑے گا۔
بلال محبوب نے کہا کہ ناصر الملک ایک دیانتدار غیر جانبدار اور قابل شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی حیثیت تمام سیاسی جماعتوں میں بہت معتبر ہے اور ان کی ساکھ بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے ان پر اعتماد اور اتفاق کیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ناصر الملک جو بھی رائے دیں گے کسی بھی صورت حال میں قانون کے دائرے میں ہو گی اور وہ کسی بھی ایمرجینسی سے نمٹنے کے بہت زیادہ اہل ہو ں گے۔