واشنگٹن کے ایک تجزیہ کار جارج پرکووچ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان ایک ناکام ریاست بن رہا ہے تو واشنگٹن نے اس مقام تک پہنچنے میں اس کی مدد کی ہے۔
جارج پرکووچ واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے کارنیگی انڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے نائب سربراہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کی مدد اسی وقت کی ہے جب اسے خطے میں اپنے سیکیورٹی مفادات کے لیے پاکستانی فوج کی ضرورت تھی۔
ان کا کہناہے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات 1950 ءکے اوائل میں شروع کیے۔ اس وقت یہ ملک ہمارے لیے روس کے خلاف معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم تھا۔
1980ء اس لحاظ سے جانا جاتا ہے کہ کیسے ہم نے پاکستان اور آئی ایس آئی کے اشتراک سے روس کو افغانستان میں شکست دی۔
نائین الیون کے واقعے کے بعد امریکہ واپس پاکستان کی طرف گیا اور کہا کہ آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف اور جنرل مشرف نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
پرکووچ کا کہناہے کہ یہ حکمتِ عملی مسائل کا حل نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان مسائل کے حل کی امید ایک ہی راستے پر ملتی ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو انتخاب کے ذریعے حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہو۔ اور یہ درست ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتیں کرپشن کا سدِباب نہیں کر رہیں۔ لیکن اگر منتخب حکومتوں کو وقت دیا جائے تو ان پارٹیوں میں خود بخود اصلاحات آئیں گی۔ پی پی پی اور مسلم لیگ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو بہتر گورننس کر سکتے ہیں جو شاید کرپشن نہ کرتے ہوں اور مختلف ہوں۔ اور وہ پارٹی لیڈرشپ کے نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔
جارج پرکووچ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کاحل تلاش کرنے کے لئے اندرونی تنازعات کو طے کرنا ہوگا کیونکہ بیرونی خطرات کی نسبت ملک کی اندرونی سیکیورٹی صورتِ حال اب پاکستان کے لیے زیادہ بڑا چیلنج ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 2014 ءسے پہلے افغانستان میں استحکام اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تینوں ممالک کے درمیان کسی حکمتِ عملی پر اتفاق رائے ضروری ہے کیونکہ امریکہ ،پاکستان یا افغانستان میں سے کوئی بھی ملک تنہا خطے میں امن قائم نہیں کر سکتا۔