پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ذرائع ابلاغ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے ریمارکس سے متعلق خبروں کو "من گھڑت" اور "گمراہ کن" قرار دیتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو سنسنی خیزی سے اجتناب برتنے کا کہا گیا ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعرات کو اورنج لائن ٹرین منصوبے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہے لہذا عوام جنہوں نے حکمرانوں کو ووٹ دیے وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔"
اس خبر کو متعدد نجی ٹی وی چینلز نے نشر کیا اور جمعہ کو یہ اخبارات میں بھی شائع ہوئی جب کہ سوشل میڈیا پر اس کا حوالہ دیا جاتا رہا۔
تاہم جمعہ کو سپریم کورٹ سے جاری ایک وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سے منسوب یہ خبر "من گھڑت اور گمراہ کن ہے۔"
بیان کے مطابق اس خبرسے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے چیف جسٹس عوام کو پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف اکسا رہے ہیں۔
"لہذا یہ واضح کیا جاتا ہے کہ یہ خبر کہ لوگ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، سراسر غلط، بے بنیاد اور گمران کن ہے۔"
عدالت عظمیٰ کے بیان میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے ریمارکسمیں کہا تھا کہ عوام صورتحال کو دیکھ بھال کر محتاط انداز میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کے لیے ووٹ کا حق استعمال کریں۔
بیان میں ذرائع ابلاغ سے کہا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ سنسنی خیزی کی بجائے احتیاط سے کام لیا جائے۔
سینئر سیاسی تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں اس وضاحت کی اس لیے ضرورت پڑی کہ ان کے ریمارکس کو سیاق و سباق سے ہٹ کرپیش کرنے پر میڈیا میں ایک منفی تاثر سامنے آیا۔
" عموماً جب اس طرح کی تبصرے کیے جاتے ہیں۔۔۔ تو وہ ایک خاص سیاق و سباق میں دئیے جاتے ہوں گے، کوئی اس کا تناظر ہوتا ہو گا لیکن جب اخباروں میں رپورٹ ہوتے ہیں وہ تناظر اس میں موجود نہیں ہوتا ۔ جب تک تناظر موجود نا ہو تو پڑھنے والا اور سننے والا یہ سمجھ نہیں پاتا کہ یہ کیوں کہا جارہا ہے تو پھر اس سے ہر آدمی اپنی مرضی کے مطلب نکالتا ہے اور میرے خیال میں یہ اس (ریمارکس)کے سیاق و سباق سے ہٹ کر اس کی تشریح ہورہی ہو گی اس نے چیف جسٹس صاحب کو مجبور کیا ہو گا کہ وہ اس کی وضاحت کریں ۔"
پاکستان میں ماضی کے مقابلے میں حالیہ برسوں میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی طرف سے ایسے ریمارکس سامنے آتے رہے ہیں جن میں انتظامیہ اور مقننہ کو مختلف امور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔