اسلام آباد —
پاکستان کے صوبہ سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل نے پیر کو سپریم کورٹ میں بتایا کہ صحرائی ضلع تھر پارکر میں قحط سالی سے متاثرہ علاقوں میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 62 ہو گئی ہے۔
عدالت عظمٰی نے تھرپارکر کی صورت حال سے متعلق سندھ حکومت سے وضاحت طلب کر رکھی تھی۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جب اس معاملے کی سماعت کا آغار کیا تو سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالفتح ملک نے اب تک کی امدادی سرگرمیوں اور جانی نقصان کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں عبدالفتح ملک کا کہنا تھا کہ بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیہ اور مناسب طبی سہولتوں کا فقدان تھا۔
'' (بچے) نمونیہ کے باعث ہلاک ہوئے، ٹھنڈ کی وجہ سے۔ کیونکہ لوگ غریب ہیں اور وہ اپنے بچوں کو سنبھال نہیں سکے۔‘‘
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے مزید بتایا کہ تھرپاکر کے علاقے لوگوں کا زیادہ انحصار بارشوں پر ہوتا ہے اور اُن کے بقول اس مرتبہ بارشیں انتہائی کم ہوئی ہیں۔
تاہم چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے نمائندے کی طرف سے بتائی گئی وجوہات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفصل رپورٹ 17 مارچ کو پیش کی جائے۔
اُدھر وفاقی و صوبائی حکومت کے اداروں کی طرف سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہے۔ وزیراعظم نے پیر کو تھرپارکر کے علاقے کا دورہ کیا اور قحط سالی سے متاثرہ خاندانوں کے لیے ایک ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔
تھر پارکر میں قحط سالی کے باعث بچوں کی اموات کی خبریں سامنے آنے پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے گزشتہ جمعہ کو اس کا از خود نوٹس لیا اور سندھ حکومت سے کہا کہ وہ بچوں کی اموات کے بارے میں رپورٹ 10 مارچ کو عدالت میں پیش کرے۔
وزیراعظم کی ہدایت پر پہلے ہی فوج کی ٹیمیں امدادی سامان کے ہمراہ متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکی ہیں جب کہ فضائیہ کی مدد سے بھی سامان تھر بجھوایا گیا ہے۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ گندم کی تقسیم میں خامیوں کی نشاندہی ہوئی ہے اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔
عدالت عظمٰی نے تھرپارکر کی صورت حال سے متعلق سندھ حکومت سے وضاحت طلب کر رکھی تھی۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جب اس معاملے کی سماعت کا آغار کیا تو سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالفتح ملک نے اب تک کی امدادی سرگرمیوں اور جانی نقصان کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں عبدالفتح ملک کا کہنا تھا کہ بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیہ اور مناسب طبی سہولتوں کا فقدان تھا۔
'' (بچے) نمونیہ کے باعث ہلاک ہوئے، ٹھنڈ کی وجہ سے۔ کیونکہ لوگ غریب ہیں اور وہ اپنے بچوں کو سنبھال نہیں سکے۔‘‘
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے مزید بتایا کہ تھرپاکر کے علاقے لوگوں کا زیادہ انحصار بارشوں پر ہوتا ہے اور اُن کے بقول اس مرتبہ بارشیں انتہائی کم ہوئی ہیں۔
تاہم چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے نمائندے کی طرف سے بتائی گئی وجوہات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفصل رپورٹ 17 مارچ کو پیش کی جائے۔
اُدھر وفاقی و صوبائی حکومت کے اداروں کی طرف سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہے۔ وزیراعظم نے پیر کو تھرپارکر کے علاقے کا دورہ کیا اور قحط سالی سے متاثرہ خاندانوں کے لیے ایک ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔
تھر پارکر میں قحط سالی کے باعث بچوں کی اموات کی خبریں سامنے آنے پر چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے گزشتہ جمعہ کو اس کا از خود نوٹس لیا اور سندھ حکومت سے کہا کہ وہ بچوں کی اموات کے بارے میں رپورٹ 10 مارچ کو عدالت میں پیش کرے۔
وزیراعظم کی ہدایت پر پہلے ہی فوج کی ٹیمیں امدادی سامان کے ہمراہ متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکی ہیں جب کہ فضائیہ کی مدد سے بھی سامان تھر بجھوایا گیا ہے۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ گندم کی تقسیم میں خامیوں کی نشاندہی ہوئی ہے اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔