لاہور میں لبرٹی مارکیٹ اور اس کے اِردگرد کا علاقہ شہر کا مہنگا ترین علاقہ ہے اور یہاں زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ اسی علاقہ میں وسیع وعریض دو پلاٹس پر ساتھ ساتھ لبرٹی سینما اور کیپری سینما واقع ہیں۔ یہ دونوں سینما گھر ویرانی کی ایک تصویر پیش کرتے ہیں۔ لبرٹی سینما تو مقدمے بازی کی وجہ سے برسوں سے بند پڑ ا ہے جبکہ کیپری سینما میں صرف وہی فلم ریلیز کی جاتی ہے جو اس سینما کی اپنی ملکیت میں ہوتی ہے۔ اس سینما کےمینجر نےوائس آف امریکہ کو بتایا کہ فلم بین بہت ہی معمولی تعداد میں اس سینما میں فلم دیکھنے آتے ہیں اور عملےکی تنخواہیں سینما کی عمارت میں واقع دکانوں کے کرائے سے پوری کی جاتی ہیں۔
پاکستان سینما مینجرز ایسوسی ایشن کے صدر قیصر ثناء اللہ کہتے ہیں کہ کروڑوں بلکہ اربوں روپے کی زمین پر یہ سینما بس سمجھیں بند ہی پڑے ہیں لہذا امکان یہی ہے کہ ان کو ختم کردیا جائےگا۔ اُنہوں نے بتایا کہ میکلوڈ روڈ لاہور پر واقع معروف رتن سینما کے بارے میں نیلامی کا عدالتی حکم جاری ہوچکا ہے جبکہ دیگر پرانے سینما ہال سارے کے سارے مسلسل گھاٹے میں چل رہے ہیں ۔ اُن کے مطابق ایک تو ان سینماؤں کو نئی فلمیں نہیں مل پاتیں کیونکہ نئی فلمیں بن ہی نہیں رہیں اور دوسرے اگر ایک آدھ فلم بنتی ہے تو پروڈیوسر دس فیصد منافع پر ان پرانے سینما گھروں کو فلم دینے پر بمشکل راضی ہوتے ہیں۔ قیصر ثناء اللہ نے بتایا کہ محض پرانی فلمیں چلا کر یہ سینما گھر قائم تو ہیں مگر یہ معلوم نہیں کہ ان کی سکت کب ختم ہوجائے گی۔ اُنہوں نے کہا میرا اندازہ ہے کہ ان پرانے سینماؤں میں سے ہر ایک کے مالک کو ہر ماہ لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
قیصر ثناء اللہ کے پاس موجود اعداد وشمار کے مطابق پورے پاکستان میں اب پونے دو سو کے قریب سینما گھر رہ گئے ہیں جن میں سوا سو پنجاب میں ہیں جبکہ پچاس کے قریب خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور سندھ میں ہیں۔ کراچی اور لاہور دو شہر ہیں جن میں سب سے زیادہ سینما گھر ہیں۔ قیصر ثناء اللہ نے بتایا کہ کراچی میں پرانے سینما بیس کے قریب رہ گئے ہیں جبکہ لاہور میں اس وقت سترہ سینما گھر موجود ہیں۔
حکومت ِ پنجاب نے سینما گھروں کو تفریحی ٹیکس کی جو چھوٹ دی ہے اس کے بارے میں قیصر ثناء اللہ نے بتایا کہ وہ تین برس کے لیے ہے جس میں سے ڈیڑھ برس گزر چکا ہے اور مزید ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد ٹیکس کی یہ تلوار ان کے بقول پھر سینما گھروں کے سر پر لٹکنے لگے گی۔
بھارتی فلموں کی آمد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ بھارتی فلموں نے پاکستان میں سینماگھروں کو سہارا تو دیا مگر معلوم یہ ہوا ہے کہ جب تک ہماری اپنی فلمی صنعت فلمیں نہیں بنائے گی سینما گھروں کا پرانا ماحول بحال نہیں ہوسکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھر کے ان پونے دو سو پرانے سینماؤں میں سے ان کے اندازے کے مطابق محض تیس یا چالیس سینما ایسے ہوں گے جن کو سال میں چار پانچ نئی فلمیں ملتی ہوں گی۔ باقی سب سینما ان کے بقول پاکستانی ، بھارتی یا انگریزی پرانی فلموں سے کام چلاتے ہیں۔
پاکستان سینما اونرز ایسوسی ایشن کے صدر جہانزیب بیگ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ جب تک حکومت آگے بڑھ کر فلمی صنعت کو سہارا نہیں دے گی اس وقت تک ان سینما گھروں کو نئی فلمیں وافر تعداد میں ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی اور لاہور میں جو نئے سینما بنے ہیں وہ بھارتی اور انگریزی نئی فلموں کے زور پر چل رہے ہیں جبکہ ملک کےباقی سینما گھروں کی حالت بہت خراب ہے۔
جہانزیب بیگ نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت دینے کی جو مہم چلائی اس کا یہ فائدہ تو ہوا ہے کہ نئے بننے والے سینما چل رہے ہیں وگرنہ ان کے بقول ان سینما گھروں کی سرمایہ کاری بھی ڈوب جانا تھی۔ فلمی صنعت کے حوالے سے حکومت کے کردار پر بات کرتے ہوئے جہانزیب بیگ نے کہا کہ ہماری حکومت کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ سینما کا اپنا ایک کلچر ہوتا ہے اور لوگوں کا سینما جانا ایک ثقافتی سرگرمی ہے۔ ان کے بقول جہاں سینما کی وجہ سے لوگ آنا جانا شروع ہوتے ہیں وہاں دیگر معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی بڑھنے لگتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اس طرف توجہ بالکل نہیں ہے لہذا فلمی صنعت اور پرانے سینماؤں کا مستقبل اس ملک میں تاریک دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کو چاہئے کہ فلم سازوں کو ٹیکس میں چھوٹ دے اور فلم پائریسی پر مکمل کنٹرول کرے تاکہ یہاں فلمسازی ممکن ہو۔
قیصر ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت صرف دو نئی فلمیں زیر تکمیل ہیں۔ ایک 'خاموش رہو' جو ہدایت کارالطاف حسین بنا رہے ہیں جبکہ دوسری پنجابی فلم 'سالہ، سوھرا تے جوائی' فلمی ہدایتکار رشید ڈوگر بنا رہے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ یہ فلمیں بھی لاہور کے فلم اسٹوڈیوز سے باہر بن رہی ہیں کیونکہ لاہور کےتمام معروف فلم اسٹوڈیوز میں ، جن میں ایورنیو، شاہ نور اور باری اسٹوڈیوز بھی شامل ہیں ، مختلف نجی ٹی وی چینلز کے پروگراموں کے سیٹ لگے ہوئے ہیں۔ قیصر ثناء اللہ کے بقول فلم اسٹوڈیوز کو اب وڈیو انڈسٹری ہی استعمال کررہی ہے۔ لاہور اور کراچی میں جو نئے سینما بنے ہیں اور جن میں بھارتی اور انگریزی نئی فلمیں ریلیز ہوتی ہیں ان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ پہلے ان نئے سینما گھروں میں دو ہفتے تک فلم چل جاتی تھی اور اس کے بعد ڈی وی ڈی یا کیبل پر پہنچتی تھی مگر پائریسی کرنے والوں نے اور بھی پھرتی دکھانا شروع کردی اور پھر نئی فلم ایک ہفتہ چلنے لگی اور اب ان کے بقول نئی فلم محض تین دن نکالتی ہے کہ مارکیٹ میں اس کی ڈی وی ڈی آجاتی ہے یا کوئی کیبل چینل وہ فلم دکھا دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ نئے بننے والے یہ سینما گھر جمعہ کو نئ فلم ریلیز کرنے کی بجائے جمعرات کو ریلیز کرنے لگے ہیں ۔
قیصر ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ نئے سینما گھر ابھی اپنے اپنے علاقے میں اکیلے سینما گھر ہیں لہذا ان کو پچاس فیصد منافع پر فلم مل جاتی ہے۔ اگر مستقبل میں ان سینماگھروں کے ساتھ اور سینما بھی بن گئے تو پھر فلم دس فیصد یا بیس فیصد منافع پر ہی مل پائے گی اور ان نئے سینما گھروں کا حشر بھی پرانے سینما گھروں جیسا ہوسکتا ہے۔
لاہور میں نئے بننے والے ڈی ایچ اے سینما کے مالک عامر سجاد حیدر اس سے متفق نہیں ہیں ۔ اُنہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ان کے نزدیک آج کا سینما وہ پرانے والا سینما نہیں ہے جس کی ٹکٹ کی قیمت کم ہوتی تھی اور حکومت کا ٹکٹ کی قیمت پر کنٹرول ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب غریب آدمی تو دو سو روپے مہینہ دے کر کیبل پر سب فلمیں دیکھ لیتا ہے اور ان کے بقول آج کا سینما ہمارے ہاں ان لوگوں کا ہے جو پانچ سو روپے کا ٹکٹ خرید سکتے ہیں۔
فلمی صنعت کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے عامر سجاد حیدر نے کہا کہ پہلے بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی لگی پھر 1971میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد آدھی مارکیٹ ہماری فلمی صنعت کے ہاتھ سے نکل گئی پھر بھارتی ٹی وی کے ذریعے اور وی سی آر اور اب سی ڈی اور ڈی وی ڈی کے ذریعے بھارتی فلمیں یہاں پہنچنے لگیں اور اس طرح میکلوڈ روڈ لاہور پر ہمارے سینما گھروں میں جو فلم بینوں کا رش ہوتا تھا وہ خود ہم نے اپنےہاتھوں ختم کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فلمی صنعت کے زوال کی ایک وجہ اور بھی تھی کہ سینما کی ٹکٹ کی قیمت کا تعین حکومت خود کرتی تھی لہذا اس صنعت میں سرمایہ کاروں کے لیے منافع کمانا بہت ہی مشکل ہوگیا تھا۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں نیا سینما گھر بنانے کے بارے میں بات کرتےہوئے عامر سجاد حیدر نے کہا کہ چند برس پہلے اس شعبہ میں بہت خلاء پیدا ہو گیا تھا اور ہمارے ملک کے لوگ اچھے سینما کو ترسنے لگے تھے لہذا جولائی دو ہزار سات میں ان کے بزنس گروپ نے ڈی ایچ اے سینما کا آغاز کیا اور یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے سینما گھر میں بھارتی اور انگریزی نئی فلمیں لگتی ہیں اور پائریسی کے باوجود ان کا سینما منافع میں چل رہا ہے۔ عامر سجاد حیدر کا بزنس گروپ کراچی میں پہلے سے نشاط سینما چلا رہا تھا اور کراچی میں حال ہی میں اسی گروپ نے ایٹریم کے نام سے ایک ملٹی پلیکس تھیٹر شروع کیا ہے جس میں ڈیجیٹل تھری ڈی فلموں کی نمائش کی بھی سہولت ہے۔ عامر سجاد حیدر نے بتایا کہ پچھلے برس 31 دسمبر کو ایٹریم ملٹی پلیکس کا افتتاح ہو چکا ہے اور یہ اس قدر کامیابی سے چل رہا ہے کہ ٹکٹ نہ ملنے پر لوگ ان سے باقاعدہ ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔
نئے سینما گھروں میں سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے عامر سجاد حیدر نے کہا کہ لوگ پرانے سینما گھروں سے خائف ہوچکے تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ لوگ شکایت کرتے تھے کہ ان پرانے سینما گھروں میں نہ ایئر کنڈیشنگ قابل اعتبار ہے نہ مناسب صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے بقول وہاں کے عمومی ماحول سے بھی سینما میں دلچسپی رکھنے والے اکثر لوگ بیزار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جس وقت ڈی ایچ اے سینما شروع کیا تو اس وقت حکومت نے ابھی نہ تفریحی ٹیکس میں چھوٹ دی تھی اور نہ ہی پاکستان نے بھارتی فلموں کی اجازت دی تھی لیکن ان کے بزنس گروپ نے آگے بڑھ کر فلم بینوں کے ذوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صاف ستھرا سینما بنانے کے کام کا بیڑا اُٹھایا اور ان کے بقول اب اور جگہوں پر بھی اسی قسم کے سینما گھر بن رہے ہیں جہاں فیملیز بڑے ذوق وشوق سے فلمیں دیکھنے آتی ہیں۔
لاہور میں سنے سٹار اور بحریہ سوسائٹی کے سینما گھر اس کی مثالیں ہیں جبکہ کراچی میں ایٹریم ملٹی پلیکس کے علاوہ کچھ اور بھی سینما گھر ہیں جن میں سی ویو پر قائم تین سینما ہال شامل کیے جاتے ہیں۔ عامر سجاد حیدر نے بتایا کہ نئے بننے والے ان سینما گھروں میں شہر کے تمام حصوں سے لوگ آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے سینما گھر میں آنے والوں کی اکثریت کا تعلق ڈیفنس سے نہیں بلکہ شہر کے دوسرے علاقوں سے ہوتا ہے۔
بھارتی فلموں کی بات کرتے ہوئے عامر سجاد نے کہا کہ ہم اپنی فلمی صنعت کا بھارت سے موازنہ نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں صورتحال بہت مختلف ہے۔ وہاں حکومت ٹیکس میں چھوٹ دیتی ہے اور وہاں پائریسی پر بھی کافی کنٹرول ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابھی مزید نئے ایسے سینما گھروں کی گنجائش موجود ہے جو اسی طریقے سے چلیں جیسے ڈی ایچ اے اور دیگر نئے سینما چل رہے ہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمارے یہاں سینما گھروں کا پرانا ماحول بحال ہوجائے اور جس طرح ایک زمانے میں میکلوڈ روڈ لاہور پر اکثر سینما کے ہاؤس فُل ہوتے تھے، ویسی ہی صورتحال پھر پیدا ہوجائے تو ایسا ہونا ان کے بقول بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ عامر سجاد حیدر کا کہنا تھا کہ سینما گھر کی کھڑکی وہ واحد جگہ ہے جہاں سے فلمی صنعت کو پیسہ واپس ہوتا ہے ۔ لہذا سینما گھر کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت مقامی فلمی صنعت فلمیں نہیں بنا رہی تو درآمد شدہ فلموں پر سینما گھر چلنے چاہئیں تاکہ مستقبل میں اگر ہماری فلمی صنعت اپنے پیروں پر کھڑ ی ہوجائے تو اس کے لیے سینما گھر تو موجود ہوں ۔
سینما صنعت سے متعلق یہ تمام شخصیات اس بات پر متفق تھیں کہ سینما گھر کے بننے سے اس کے اِردگرد معاشی سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایک ملٹی پلیکس سینما بننے کا اثر یہ ہوا کہ جس بزنس مال کا یہ حصہ تھا اس کی دکانیں اس ملٹی پلیکس کی وجہ سے جلد فروخت ہوگئیں جبکہ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں شمار ہوتی ہے مگر اتنی بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود اپنے پہلو میں موجود لبرٹی سینما اور کیپری سینما کےلئے سہارا نہ بن سکی اور یہ دونوں سینما گھر بے بسی کی ایک تصویر بنے ہوئے ہیں۔