پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہفتہ کو یوم اقبال کے حوالے سے ایوان اقبال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان جمہوری ملک ہے اور ان کے بقول کسی میں ہمت ہے جو مارشل لاء لگائے۔
"میرا وعدہ ہے ہم کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے، سن کر حیرت ہوتی ہے، جب کچھ اینکروں کو بھونچال آتا ہے کہ مارشل لاء آ رہا ہے، کون لگا رہا ہے مارشل لاء؟ کس چیز کا مارشل لا؟ کس نے لگانے دینا ہے مارشل لاء؟ کس میں ہمت ہے؟ یہ ملک صرف جمہوری ہے، قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور جمہوریت تھا اور ملک میں صرف جمہوریت رہے گی"۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی عدالتیں مکمل آزاد ہیں، عدالتوں پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
"پہلے میں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تومیں نہیں ہوں گا لیکن آج پیغام دے کر جا رہا ہوں کہ جس دن شب خون مارا گیا اس دن میں تو کیا سپریم کورٹ کے سترہ ججز نہیں ہوں گے۔ کسی جوڈیشل مارشل لاء کا تصور ذہن میں ہے نہ آئین میں ہے، یہ کسی کے دل کی خواہش یا اختراع ہوسکتی ہے، کیوں لوگوں کو اضطراب میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، ماورائے آئین کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں"۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پہلے اپنے اوپر وہ کیفیت طاری کریں جس میں قوم کی خدمت کا جذبہ ہو، بنیادی حقوق دینےکا جذبہ ہو۔
"کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو، جس ووٹ کی قدر اور عزت کے لیے فرماتے ہیں اس کی عزت یہ ہے کہ لوگوں کی عزت کریں ان کو وہ حق دیں جو آئین نے ان کو فراہم کیا، میں نے بنیادی حقوق کے لیے کام کیا، کیا کوئی غلط کام کیا"۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ان کی نظر میں سب سے اہم چیز تعلیم ہے، تعلیم سے متعلق کسی چیز پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
"ہمارے ملک میں یہ تعلیم کا عالم ہے، بلوچستان میں چھ ہزار پرائمری اسکول پانی اور بیت الخلاء کے بغیر چل رہے ہیں، بچیاں حاجت کے لیے فصلوں میں جاتی ہیں، پینے کے لیے پانی میسر نہیں، پنجاب میں اسی طرح کی صورتحال ہے، کے پی میں بتایا گیا وہاں بہت اسکول ہیں جہاں پانی اور چار دیواری تعمیر نہیں ہوسکی، یہ کون دے گا؟ ہمارا ٹیکس کا پیسہ تعلیم پر خرچ نہیں ہوتا تو کہاں ہوتا ہے"۔
حالیہ مہینوں میں چیف جسٹس کی طرف سے مفاد عامہ کے مختلف معاملات کا جائزہ لینے اور اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کا از خود نوٹس لیے جانے پر بعض حلقوں کی طرف سے ان پر تنقید دیکھنے میں آچکی ہے اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو جلد انصاف کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے۔
بظاہر اسی تنقید کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "ہر عدالت میں جا رہا ہوں، دیکھ رہے ہیں کہ کیسی کارکردگی ہے، یہاں کوئی وضاحت دینے کے لیے نہیں آیا، کسی ذمہ داری سے اپنے آپ کو نہیں چھڑانا چاہتا، لیکن کیا انصاف کرنا عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے ، ہر ادارے جس میں بے انصافی ہو ان کا فرض ہے کہ وہاں انصاف کریں۔"