پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے ہاں ہونے والی دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" ملوث ہے۔
یہ بات سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان نے کئی بار بھارت کے ساتھ "را" کی مداخلت کا معاملہ اٹھایا ہے۔
بعد ازاں سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی عہدیداروں سے ہونے والی ملاقاتوں میں اس بارے میں ثبوت بھی دیے گئے اور ایک بار پھر بھارت سے کہیں گے کہ وہ اس کو سنجیدگی سے لے کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں "ہم سب ایک طرف ہیں۔"
"را بدقسمتی سے پاکستان کے اندر بدامنی میں ملوث رہی ہے اور ہم نے بارہا یہ پیغام ہندوستان کو دیا ہے کہ یہ کارروائیاں روکی جائیں۔ اگر پاکستان میں امن آئے گا تو پورے خطے میں امن آئے گا تو اس سے ہندوستان کو بھی فائدہ ہوگا۔
بھارت کی طرف سے اپنے ہاں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی "آئی ایس آئی" کے ملوث ہونے کے بیانات تو تواتر سے سامنے آتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے "را" کی مداخلت پر کھل کر بیانات حالیہ ہفتوں میں ہی منظر عام پر آنا شروع ہوئے۔
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ بھارت، افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت اور شورش پسندی کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
بھارت ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستانی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے اجلاس میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں "را" کے ملوث ہونے کے معاملے پر غور کیا گیا جب کہ گزشتہ ماہ جنرل راحیل شریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے غیر ملکی ایجنسیوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان اور بلوچستان میں کارروائیوں سے باز رہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں پاک افغان تعلقات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ "پاکستان نے افغانستان کو بتایا ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے بھارتی ایجنسی را کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔"
ان کا کہنا تھا کہ دو طرفہ تعلقات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ دونوں ملک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
پاکستان کے سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب جب کہ ملک کی سلامتی کے ادارے بھی دہشت گردی میں "را" کے ملوث ہونے کی بات کر رہے ہیں تو سیاسی قیادت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ یہ معاملہ اٹھانا چاہیے۔
"یہ معاملہ ملک کے وزیراعظم کو اٹھانا چاہیے جب تک سیاسی قیادت یہ بات نہیں اٹھائی گی تو اس کو وہ پذیرائی نہیں ملے گی جو ملنی چاہیے۔۔۔ اس معاملے پر انگشت نمائی کی بجائے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔"
پاکستان کی طرف سے حالیہ مہینوں نے یہ بیانات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ اسلام آباد نئی دہلی سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے اور مبصرین کا ماننا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ممالک میں کشیدگی سے پورے خطے کے معاملات بگڑ سکتے ہیں جو کسی کے مفاد میں نہیں۔