رسائی کے لنکس

اوتھل، صاف پانی نایاب ہوگیا،نہایت خطرناک بیماریاں پھیلنے لگیں


اوتھل کاجوہڑ، یہاں انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پینے پر مجبور ہیں
اوتھل کاجوہڑ، یہاں انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پینے پر مجبور ہیں

پاکستان میں آنے والے حالیہ بے رحم سیلاب نے پشاور سے لیکر سندھ تک ہرصوبے کو بری طرح جھنجھوڑ دیا ہے۔ بلوچستان کی تحصیل اوتھل بھی ایسا ہی علاقہ ہے جہاں سیلاب نے بے دردی کی نئی کہانیاں رقم کی ہیں۔ اس تحصیل کا سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کی عدم دستیابی ہے جس کے باعث بڑی تعداد میں سیلاب متاثرین کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

مرے پرسو درے کے مصداق اکتوبر کا سرد موسم بھی اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ شروع ہوچکا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ خطرہ حاملہ خواتین اوربچوں کو ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موسم کے عین مطابق پہلے سے انتظامات نہ کئے گئے تو سخت موسم بھی متاثرین سیلاب کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔

حب سے ایک کلو میٹر دور بلوچستان کے علاقے اوتھل میں صاف پانی کی عدم دستیابی کا حال یہ ہے کہ متاثرین ،اس جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں جہاں سے جانورپانی پیتے ہیں ۔ کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ جگہ جگہ کھڑاہوجانے والا سیلابی پانی بھی انسانوں کو مجبوراً پینا پڑ رہا ہے۔ اس پانی سے مختلف موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ سیلاب کے باعث بڑی تعداد میں جانور ہلاک ہو گئے ہیں جو اسی پانی میں پڑے سڑ رہے ہیں ۔اسی پانی سے گائے ، بھینسیں اور دوسرے جانور نہاتے بھی ہیں اوران کا فضلہ بھی اس میں شامل ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم لائف کیئر ویلفیئر آرگنائزیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر ریحانہ نگہت نے وی اواے سے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جانوروں اور انسانوں کا ایک ہی جگہ سے پانی پینا انتہائی خطرناک ہے ، اس صورتحال میں جلدی بیماری نے انتہائی خطرناک صورت اختیار کر لی ہے اور متاثرین کی جلد گلنے لگی ہے ۔ اس کے علاوہ گیسٹرو، قے و دست، یرقان ،ملیریا،پیٹ اور آنتوں کی بیماری کی وجہ سے بہت سی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیماریاں مزید زور پکڑتی جا رہی ہیں ۔ اگر پانی کے مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو بڑی تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں اور صرف اوتھل میں تقریباً پانچ سو لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہے جبکہ بیلہ اوردریجی میں بڑی تعداد میں قریبی گوٹھوں میں متاثرین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ڈاکٹر ریحانہ کا کہنا ہے کہ اوتھل کے امدادی کیمپوں میں مچھر اور مکھیاں کی بہتات بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ مکھیاں متاثرین کے گہرے زخموں پر نہ صرف بیٹھ رہی ہیں بلکہ اْن زخموں کے اندر انڈے بھی دے رہی ہیں۔ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے عہدیدار مینگیشا کیبیدی انتباہ کر چکے ہیں کہ اگر صورتحال جلد بہترنہ بنائی گئی تو متاثرین مجبوراً ایران کا رخ کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں چند دنوں بعد موسم سرما شروع ہو جائے گا اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے تو حاملہ خواتین کے ساتھ ساتھ نومولود بچوں کی بڑی تعداد لقمہ اجل بن سکتی ہے ۔

ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو کروڑ دس لاکھ متاثرین میں سے پانچ لاکھ تعداد حاملہ خواتین کی ہے اور آنے والے دنوں میں ہر روز سترہ سو خواتین زچگی کے مراحل سے گزریں گی جن میں سے یومیہ دو سو پچاس کو طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے ۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ میں سے تین سو بیس خواتین زچگی کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔ ادھر ڈاکٹر ریحانہ کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین غذائی کمی، خون کی کمی ، تھکاوٹ اور کمزوری کا شکار ہیں۔ نقل مکانی کے دوران دور دراز پید ل سفر کرنے اور بھاری وزن اٹھانے سے پہلے ہی بڑی تعداد میں حمل ضائع ہو چکے ہیں اور اس کی ایک وجہ خواتین میں آگاہی نہ ہونا بھی ہے ۔ زیادہ تر علاقوں میں طبی سہولیات کا فقدان ہے اورمریضوں کو دور دراز علاقوں میں ڈاکٹرز کے پاس چارپائیوں پر لے جایا جاتا ہے ۔ بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث بہت سے مریض راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ گاؤں دیہات کے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی خواتین کا لیڈی ڈاکٹرز ہی معائنہ کریں اور وہ مرد ڈاکٹرز سے علاج کروانے میں اجتناب برتتے ہیں ۔

ڈاکٹر ریحانہ کے مطابق موسم سرما حاملہ خواتین اور بچوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ،کیونکہ سردی سے ماں کو نمونیہ اور دیگر بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں اور اگر ماں بیمار ہو گی تو بچہ پیدائشی طور پر بیمار پیدا ہو گا ۔انہو ں نے بتایا کہ متاثرین کے کیمپ سخت سردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔بعض علاقوں میں تو کیمپ بھی میسر نہیں اور لوگ پھٹی پرانی دو چادریں ٹانگ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ اگر موسم کے مزید شدت اختیار کرنے سے قبل حاملہ خواتین کو گرم کمبل و گرم ملبوسات فراہم نہ کئے گئے تو صورتحال بہت زیادہ خراب ہو سکتی ہے ۔

XS
SM
MD
LG