گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر معمولی موسمی حالات کی وجہ سے پاکستان کو تقریباً تین ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا اور ہزاروں افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
یہ بات ایک جرمنی کے ایک تحقیقاتی ادارے' جرمن واچ' کی طرف سے گلوبل کلائمیٹ انڈیکس 2018ء سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں کہی گئی ہے جس میں خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے سدباب کے لیے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم ترقی یافتہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور وہ خطے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں واقع ممالک غیر موسمی حالات پیدا ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔
پاکستان کا شمار ان ملکوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نا ہونے کے برابر ہے لیکن وہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی ماحولیاتی تغیرات سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 1997ء سے لے کر2015ء کے دوران پاکستان میں غیر معمولی موسمی حالات کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات میں 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ملک کی معیشت کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر قمرالزمان نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو درپیش چیلنجوں میں غیر معمولی موسمی تغیر کا چیلنج سب سے بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان کو حالیہ سالوں میں توانائی کے بحران کا سامنا رہا ہے جس سے نمٹنے کے ملک کے مختلف حصوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ نصب کئے گئے اور بعض ماہرین کی رائے ہے کہ یہ ملک میں آلودگی کا باعث بن سکتے ہیں۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان پلانٹس میں ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے جس سے گیسوں کا اخراج کم سے کم کیا جا سکے۔
اگرچہ حکومت نے حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات کئے ہیں تاہم قمرالزمان کا کہنا ہےکہ ان اقدامات کو پائیدار بنیادوں پر جاری رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان کو گزشتہ چند سالوں کے دوران توانائی کے شدید بحران کا سامنا رہا جس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے یہ تیل اور گیس کےعلاوہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹ نصب کیے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ حکومت کو قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر کام تیز کرنا ہو گا جس میں پن بجلی اور شمسی توانائی سے بجلی کا حصول بھی شامل ہے۔