پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے منگل کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات میں تعطل پہلی مرتبہ نہیں آیا۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ شدت پسندی میں اضافے، داعش اور دیگر عسکریت پسند قوتوں کے سامنے آنے بعد اب صورت حال پیچیدہ ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ عراق، شام، لیبیا اور یمن میں بھی آگ بھڑکی ہوئی ہے اور اُن کے بقول خطے میں کشیدگی مزید نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اُن کے ملک کو توقع ہے کہ سعودی عرب اور ایران تاخیر کیے بغیر جلد اپنے تعلقات مذاکرات کے ذریعے بحال کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ مسلمان ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ اور مسلم ممالک میں تقسیم کسی صورت خطے کے امن و استحکام کے لیے اچھی نہیں۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ ’’بطور ’او آئی سی‘ کے ایک اہم رکن ملک کے اور سعودی عرب و ایران کے دوست کے طور پر اس معاملے میں (اسلام آباد اپنا) مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔ پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرانے اور تعلقات میں بہتری کے لیے بھی کوششیں جاری رکھے گا۔‘‘
اس سے قبل پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان میں بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملہ بین الاقوامی معیار کے خلاف اور قابل افسوس ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ یہ تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہاں دیگر کے ممالک سفارت و قونصل خانوں اور سفارتی عملے کو مکمل سکیورٹی فراہم کریں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ انتہا پسند ’سیاہ قوتیں‘ اور دہشت گرد مسلم ممالک میں کسی بھی تقسیم کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
بیان میں زور دیا گیا کہ ان مشکل حالات میں مسلم ممالک کے اتحاد کے وسیع تر مفاد میں موجودہ کشیدگی کو پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیئے۔
سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے پاکستان کو فوری اقدامات کرنے چاہیئں۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق کہتے ہیں کہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان وقت ضائع کیے بغیر دو مسلمان ممالک میں کشیدگی کم کرانے کے لیے کردار ادا کرے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم دین شیخ نمر النمر سمیت 47 افراد کو سزائے موت دیئے جانے کے بعد صورت حال میں کشیدگی دیکھی گئی۔
خاص طور پر ایران میں شدید ردعمل دیکھا گیا جہاں مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارتخانے پر دھاوا بول کر وہاں توڑ پھوڑ کی اور عمارت میں آگ لگا دی۔ اس کے جواب میں سعودی عرب نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ملک میں موجود ایران کے تمام سفارتی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں بھی شیخ نمر کو سزائے موت دیئے جانے کے خلاف پرامن مظاہرے کیے گئے۔