ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کُلاچی میں پولیس تھانے پر ایک روز قبل خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تدفین اتوار کو ان کے آبائی علاقوں میں کر دی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کی مدد سے اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم حکام کے لیے یہ امر گہری تشویش کا باعث ہے کہ مقامی طالبان عسکریت پسندوں نے پہلی مرتبہ اپنی کسی کارروائی میں خاتون خودکش بمبار کو استعمال کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کے ایک ترجمان احسان الله احسان نے بتایا ہے کہ کُلاچی تھانے پر حملہ کرنے والے خودکش بمبار میاں بیوی تھے۔
خودکار ہتھیاروں اور بارودی مواد سے لیس مبینہ طور پر ان میاں بیوی نے ہفتہ کی شام تھانے پر حملے کے دوران خود کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا۔
پاکستان میں ہونے والا یہ پہلا حملہ ہے جس میں حکام اور طالبان دونوں ہی نے خاتون خودکش بمبار کے شریک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ خاتون خودکش بمبار کو حملے میں استعمال کرنا شدت پسندوں کی بظاہر نئی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ضلع دیر کی پولیس نے ایک آٹھ سالہ لڑکی کو پولیس چوکی پر حملے کی کوشش کے دوران حراست میں لے لیا تھا۔ تاہم سوہانہ نامی اس لڑکی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اُسے شدت پسندوں نے پشاور میں اسکول جاتے ہوئے اغوا کرنے کے بعد زبردستی خودکش جیکٹ پہنا کر پولیس چوکی پر حملہ کرنے پر مجبور کیا۔
سوہانہ کے بقول اُس نے چوکی کے قریب پہنچ کر جیکٹ اتار پھینکی اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔