رسائی کے لنکس

پاک امریکہ فوجی کمانڈروں کی سلامتی کے اُمور پر بات چیت


پاک امریکہ فوجی کمانڈروں کی سلامتی کے اُمور پر بات چیت
پاک امریکہ فوجی کمانڈروں کی سلامتی کے اُمور پر بات چیت

افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان آر ایلن نے راولپنڈی میں پاکستان کی فوجی قیادت سے بات چیت میں پاک افغان سرحد پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور سلامتی کے اُمور پر خیالات کا تبادلہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والےایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ جنرل ایلن نے ملک میں اپنے قیام کے دوران جمعرات اور جمعہ کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات اور پشاور میں گیارویں کور ہیڈ کوارٹرز کا دورہ بھی کیا۔ ’’اُنھوں نے علاقائی سلامتی کو بہتر بنانے سمیت باہمی دلچسپی کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔‘‘

مقامی میڈیا کے مطابق پشاور کے دورے کے دوران جنرل ایلن نے قبائلی رہنماؤں کے ایک نمائندہ وفد سے بھی خطاب کیا جس میں اُنھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے طویل المدتی عزم کو دہرایا۔ اُنھوں نے قبائلی عمائدین سے اس جنگ میں تعاون کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ یہ ناصرف عالمی امن بلکہ قبائلیوں کے امن کے لیے بھی ناگزیر ہے جو اس میں بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی افواج کے کمانڈر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اُن کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔

روزنامہ ڈان کا کہنا ہے کہ نیٹو کمانڈر کے ساتھ بات چیت میں پاکستانی فوجی کمانڈروں نے مشرقی افغان صوبوں میں طالبان جنگجوؤں کی پناہ گاہوں اور وہاں سے پاکستان کی سرحدی چیک پوسٹوں اور دیہاتوں پر طالبان عسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملوں کا معاملہ بھی اُٹھایا۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی
جنرل اشفاق پرویز کیانی


’’ فوجی رہنماؤں نے جنرل ایلن کے ساتھ بات چیت میں اس صورت حال پر احتجاج کرتے ہوئے اس امر پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ فوجی آپریشن سے فرار ہونے والے پاکستانی طالبان کیونکر بغیر کسی رکاوٹ کے (افغانستان کے) کنڑ اور نورستان صوبوں سے دیر اور چترال کے سرحدی علاقوں میں یہ حملے کر رہے ہیں۔‘‘

اخبار نے اپنے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل ایلن پر واضح کیا گیا کہ مستقبل میں سرحد پر اس طرح کی دراندازیوں کو روکنا اتحادی اور افغان افواج کی ذمہ داری ہے۔

اگست کے اواخر میں سینکڑوں طالبان جنگجوؤں نے چترال میں افغان سرحد پر پاکستانی فورسز کی سات چوکیوں پر ایک بڑا حملہ کیا تھا جس میں کم از کم پچیس سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ اس سے قبل دیر کے ایک سرحدی علاقے میں بھی طالبان جنگجوؤں نے ایک ایسی ہی کارروائی میں لگ بھگ تین درجن پاکستانی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ملوث جنگجوؤں کا تعلق باجوڑ میں طالبان کمانڈر مولوی فقیر اور سوات کے طالبان کمانڈر مولانا فضل اللہ سے ہے جنھوں نے ان علاقوں میں فوجی آپریشن سے بھاگنے کے بعد افغانستان کے کنڑ اور نورستان صوبوں میں اپنی پناہ گاہیں بنا لی ہیں جہاں سے سرحد پار پاکستانی علاقوں میں حملے کیے جارہے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG