رسائی کے لنکس

افغانستان میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں


افغانستان میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں
افغانستان میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں

پاکستانی وزیر خارجہ نے اس تاثر کی کھلے الفاظ میں نفی کی کہ اُن کا ملک افغانستان میں کسی ’’اسٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ کا متلاشتی ہے۔ اُن کے بقول مخصوص عناصر اس مفروضے کو پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔

پاکستان نے طالبان شدت پسندوں کی براہ راست معاونت کے تازہ ترین الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کا افغانستان میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے۔

وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بدھ کو کابل میں افغان قیادت کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنے ہم منصب زلمے رسول کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف ماضی میں بھی اس نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

’’میرے خیال میں یہ (ایسا ہی ہے جیسے) پرانی شراب اُس سے بھی زیادہ پرانی بوتل میں بھر دی گئی ہو۔‘‘

اس سے قبل برطانوی ذرائع ابلاغ نے افغانستان میں طالبان قیدیوں کی آراء پر مشتمل نیٹو کی ایک ’’انتہائی خفیہ‘‘ دستاویز کی تفصیلات جاری کی تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی فوج کا خفیہ ادارہ ’انٹر سروسز انٹیلی جنس‘ (آئی ایس آئی) شدت پسندوں کو اتحادی افواج پر حملوں میں براہ راست معاونت فراہم کر رہا ہے۔

لیکن پاکستانی وزیر خارجہ نے اس تاثر کی کھلے الفاظ میں نفی کی کہ اُن کا ملک افغانستان میں کسی ’’اسٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ کا متلاشتی ہے۔ اُن کے بقول مخصوص عناصر اس مفروضے کو پاکستان کے خلاف پروپیگینڈا کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔

’’تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے ایک قبرستان تو ثابت ہوا ہے لیکن کوئی بھی اس کی سرزمین سے اپنے اسٹریٹیجک مفادات حاصل نہیں کر سکا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے کابل دنیا کا اہم ترین دارالحکومت ہے کیوں کہ افغانستان میں لڑائی کا تسلسل ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔

حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ دونوں ہمسایہ ممالک گزشتہ تین دہائیوں کے دوران تباہ حالی دیکھ چکے ہیں، اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ الزام تراشی کی بجائے باہمی اعتماد کی بنیاد پر حکومتوں اور عوام کے درمیان پائیدار تعلقات استوار کیے جائیں تاکہ مشترکہ چیلنجوں سے موثر انداز میں نمٹا جا سکے۔

’’خطے میں استحکام کا راستہ کابل سے گرزتا ہے اور افغانستان میں امن و خوشحالی کے عزم کی عدم موجودگی میں پاکستان میں امن و استحکام کی بات کرنا غیر سنجیدہ فعل ہوگا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ اُن کے دورہ کابل کا مقصد بھی افغان حکومت اور عوام کے لیے اپنے ملک کی طرف سے امن، امید اور خیر سگالی کا پیغام پہنچانا تھا۔

اس سے قبل وزیر خارجہ کی قیادت میں پاکستان وفد نے افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے علاوہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں اور دہشت گردی کے خلاف کوششوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے پاکستان نے ’’افغانوں کی سربراہی میں کی جانے والی کسی بھی کوشش کی مکمل حمایت کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘‘۔

ستمبر میں طالبان سے مصالحت کے لیے قائم اعلیٰ سطحی افغان امن کونسل کے سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی کی خودکش حملے میں ہلاکت کے بعد پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہو گئے تھے لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل بظاہر اس کشیدگی میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔

اُدھر پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم (پاکستان) افغانستان میں عدم مداخلت کے عزم پر قائم ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ تمام دیگر ممالک بھی اس اصول پر کاربند رہیں گے۔‘‘

XS
SM
MD
LG