رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان میں ممکنہ فوجی آپریشن کا معمہ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد خصوصاََ پاکستانی فوج کو بظاہر امریکہ کی طرف سے غیر معمولی دباؤ کا سامنا ہے ۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے دوروں کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک ملن نے کہا تھا کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں شدت پسندو ں کے خلاف فیصلہ کن اور ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔

ایک روز قبل مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند عسکری تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا آغاز لڑاکا طیاروں سے مشتبہ ٹھکانوں پر بمباری کی مہم سے کیا جائے گا اور بعد میں زمینی افواج پیش قدمی کریں گی۔

لیکن پاکستان میں فوجی یا پھر حکومت کے نمائندوں کی طرف سے تاحال شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی اطلاعات کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ٹیلی فون پر اُن سے رابطوں کی کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں۔

اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد خصوصاََ پاکستانی فوج کو بظاہر امریکہ کی طرف سے غیر معمولی دباؤ کا سامنا ہے ۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے دوروں کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک ملن نے کہا تھا کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں شدت پسندو ں کے خلاف فیصلہ کن اور ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔

تاہم شمالی وزیرستان میں مقامی قبائلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اُن کے علاقے میں فوجی آپریشن کی اطلاعات کا مقصد مقامی آبادی میں محض سنسنی پھیلانا ہے کیونکہ اُن کے بقول فوج یا حکومت کی طرف سے اُنھیں ایسی کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی کامران خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو ایسی ”غیر ذمہ دارانہ“ خبریں شائع نہیں کرنی چاہیئں۔ ’’میرے پاس حکومت کی طرف سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘

پاکستان میں موجود بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی ایسی اطلاعات کی تردید کی ہے کہ حکومت نے اُن سے درخواست کی ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں ممکنہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بے دخل ہونے والی شہری آبادی کی خوراک اور رہائش کا بندوبست کرنے کی تیاری کریں۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک ڈبلیو ایف پی کے ترجمان امجد جمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ یا عالمی ادارہ خوراک کو اس بارے میں کوئی تحریری ہدایت موصول نہیں ہوئی ہے۔

امجد جمال
امجد جمال

’’تاہم اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی ہے عالمی ادارہ خوراک کے پاس ملک میں ذخائر موجود ہیں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ اس وقت بھی اُن کا ادارہ بے گھر ہونے والے سوا سات لاکھ افراد کو خوراک اور دیگر مدد فراہم کر رہا ہے۔

شمالی وزیرستان حقانی نیٹ ورک کا مضبوط گڑھ مانا جاتا ہے اور امریکہ کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے جنگجو سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اُس کی اتحادی افواج پر مہلک حملوں میں ملوث ہیں۔

شمالی وزیرستان کی آبادی تقریباََ چار لاکھ ہے تاہم ان میں خاص طور پر سرکاری اداروں کے ملازمین اور حکومت کے حامی ہزاروں قبائلی خاندان امن وامان کی خراب صورت حال سے پریشان ہوکر حالیہ مہینوں میں علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG