|
پاکستان میں حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے پر غور کر رہی ہے اور وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پنشن اصلاحات کی سفارشات تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ آئی ایم ایف(IMٖ) کی سفارشات کا حصہ ہے۔
پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر میں زیادہ تر کارکنوں کو پنشن نہیں ملتی اور ان میں سے اکثر کی باقی ماندہ زندگی مالی پریشانیوں میں گزرتی ہے۔ حکومت ان کی بہبود کے لیے ایک پروگرام چلا رہی ہے لیکں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا دائرہ بہت محدود اور فراہم کی جانے والی مالی مدد برائے نام ہے۔
تنخواہوں اور پنشن میں اصلاحات
ڈاکٹر صفدر سیہل، اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سوشل پروٹیکشن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔ اور وہ 2016 سے 2022 تک تنخواہوں اور پنشن اصلاحات کے لیے بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنشن کا ایک ایسا نظام وضع کیا جانا چاہیے جس کا اطلاق سرکاری اور غیر سرکاری تمام شعبوں کے ملازموں پر ہو۔ ملازم صرف پنشن وصول ہی نہ کرے بلکہ اس میں اپنا حصہ بھی ڈالے۔ پنشن فنڈ میں ایک خاص تناسب سے اپنا حصہ ڈالیں اور ان رقوم کو سرمایہ کاری کے محفوظ منافع بخش منصوبوں میں لگایا جائے جس کا منافع پنشن میں شامل کیا جائے۔ ان معاملات کی نگرانی اور نقسیم کے لیے ایک بااختیار ادارہ قائم کیا جائے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ اقتصادیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عابد گل بھی سب کے لیے پنشن کے نظام کی حمایت کرتے ہیں اور ڈاکٹر صفدر سہیل کی طرح وہ بھی پنشن میں شراکت داری کے نظام کے حامی ہیں تاکہ حکومت کے مالی وسائل پر ایک بھاری بوجھ نہ بنے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں شراکت داری کی پنشن کا نظام 2004 سے کام کر رہا ہے اور پاکستان کو بھی اس نظام کی طرف جانا چاہیے کیونکہ حکومت پر پنشن کے اخراجات میں سالانہ 20 فی صد سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اور آئندہ برسوں میں یہ بھاری بوجھ اٹھانا حکومت کے لیے ممکن نہیں رہے گا۔
کیا اس سےنوجوانوں میں بیروزگاری بڑھے گی؟
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں روزگار پہلے ہی ایک مسئلہ ہے اور ہر سال بے روزگاروں کے کیمپ میں لاکھوں نوجوانوں کا اضافہ ہو جاتا ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سے بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی اور انہیں مزید انتظار کرنا پڑے گا۔
کراچی میں کونسل آن اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹ کے صدر راجہ کامران کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ ان معیشتوں کے لیے تو کار آمد ہو سکتا ہے جہاں نوجوان افرادی قوت کم ہے لیکن پاکستان کے لیے نہیں، جہاں ہر سال لاکھوں نئے نوجوان جاب مارکیٹ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب نوجوانوں کو چند سال تک روزگار نہ ملے تو پھر عمر بڑھنے کی وجہ سے ان پر نوکری کے دروازے بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے نوجوانوں کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اس مسئلے پر اسلام آباد میں کئی نوجوانوں سے بات کی جن میں سے اکثر نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں متوقع اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملازمتیں نہ ملنے سے ان میں ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ بہت سے نوجوان ملک سے باہر جانے کی کوشش میں ہیں۔ روزگار نہ ہونے سے ان کی شادیوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔
پاکستان کے ایک آزاد تھنک ٹینک سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی نظام تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ترقی یافتہ ملکوں کی طرح یہاں بھی گریجوایشن 14 کی بجائے 16 سال میں ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے نئی ملازمت میں آنے والے نوجوانوں کو ان سے پہلے کے ملازموں کے مقابلے میں سروس کے لیے دو سال کم ملیں گے۔ اس لیے ریٹائرمنٹ کی عمر میں کم از کم دو سال کا اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صفدر سیہل کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجاویز بہت عرصے سے سامنے آ رہی ہیں۔ ان کے خیال میں عمر بڑھانے سے نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے مواقعوں پر اثر نہ ہونے کے برابر ہو گا۔ کیونکہ کئی برسوں سے ریٹائر ہونے والوں کی جگہ نئی بھرتیاں نہیں کی جا رہیں ، بلکہ خالی ہونے والی پوسٹوں پر کانٹرکٹ ملازم رکھے جا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوانوں کو نقصان صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر کانٹرکٹ کی نوکریاں ریٹائرڈ افراد کو دے دی جائیں۔ بعض جگہوں پر ایسا ہی ہو رہا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھنے سے سرکاری ملازمتوں میں نئے داخلے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ زیادہ تر حکومتی ادارے اب نئی بھرتیاں کانٹریکٹ پر کر رہے ہیں، جو مسلسل جاری رہتی ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول کے شعبہ اقتصادیات کے چیئرمین ڈاکٹر عابد گل بھی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کا پنشن بل اس کے ترقیاتی بجٹ کے تقریباً برابر ہو چکا ہے،جو ایک انتباہی صورت حال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ پنشن بل میں اضافہ روکنے کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر ریٹائرمنٹ کی عمر میں پانچ سال کا اضافہ کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں 60 سال کی عمر میں انسان کا دماغ زرخیز اور وہ جسمانی طور پر فعال ہوتا ہے۔ اس کے پاس ماضی کا وسیع تجربہ ہوتا ہے۔ اسے گھر بھیجنے سے ادارے کو نقصان ہوتا ہے۔
تاہم راجہ کامران کہتے ہیں کہ پنشن کی عمر میں اضافے سے ان ملازموں کے ہیجان پیدا ہو گا جو اپنی پرموشن کے انتظار میں ہیں۔ جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ اسے آئندہ کئی سال تک ترقی نہیں مل سکتی تو اس پر مایوسی طاری ہو گی اور اس کی کارکردگی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھنے کا فائدہ یکساں طور پر اپنی پروموشن کا انتظار کرنے والوں کو بھی ہو گا۔ ان کی ملازمت کے دورانیے میں بھی اتنا ہی اضافہ ہو جائے گا اور انہیں ترقی کے بعد نئی پوزیشن پر اتنا ہی وقت ملے گا جتنا کہ اب مل سکتا ہے۔ فرق صرف یہ پڑے گا کہ پروموشن کا انتظار کچھ لمبا ہو جائے گا۔
800 ارب روپے سے زیادہ اخراجات
رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان نے 2023-24 کے مالی سال میں پنشن اور ملازمت سے سبکدوشی کے اخراجات کی مد میں 800 ارب روپے سے زیادہ صرف کیے ۔ یہ اخراجات ایک سال پہلے کے مقابلے میں 31 فی صد زیادہ ہیں۔
پنشن کا موجودہ طریقہ کار جاری رہنے کی صورت میں اگلے مالی سال میں ان اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔ حکومت کے مالیاتی مینجیرز اس صورت حال سے ملک کو نکالنا چاہتے ہیں، کیونکہ بھاری قرضوں میں پھنسی حکومت کو اپنے مالی استحکام کے لیے عالمی اداروں کی مدد کی ضرورت ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے غیرپیداواری اخراجات کو قابو میں لائے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کہہ چکے ہیں کہ سرکاری مالیات میں بہتری لانے کے لیے پنشن کے اخراجات پر قابو پانا ضروری ہے کیونکہ پنشن کی ادائیگیاں ایک بھاری بوجھ بن چکی ہیں۔ جس پر کنٹرول کے لیے حکومت ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے پر غور کر رہی ہے۔
پاکستان میں اس وقت ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ عمر محض ایک نمبر ہے۔ آج 60 سال کی عمر کا شخص 40 سال جیسا ہے۔
تعلیم ، شعور و آگہی اور صحت کی سہولیات بڑھنے سے پاکستان کی متوقع اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مائیکروٹرینڈز کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے پاکستان کی متوقع اوسط عمر کا تخمینہ تقریباً 68 سال لگایا گیا ہے، جو 1950 کے 34 سال کی اوسط کے مقابلے میں ایک نمایاں اضافہ ہے۔ تاہم یہ ہندسہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کافی پیچھے ہے۔
عالمی بینک نے 2020 میں پاکستان کو انتباہ کیا تھا کہ پنشن اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں آئندہ چند برسوں میں حکومت کے پاس اپنے ترقیاتی اخرجات کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔
ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے سے حکومت کو فوری طور پر کچھ سہولت مل سکتی ہے جس سے کچھ عرصے کے لیے نئے پنشروں کا بوجھ ٹل جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں کتنا اضافہ ہو۔ وزیر خزانہ اورنگ زیب کہتے ہیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے میں نے اپنے سابق مالیاتی ادارے حبیب بینک میں ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے بڑھا کر 65 سال کر دی تھی۔
وزیر قانون تارڑ کہتے ہیں کہ یہ اضافہ ایک سال، دو سال یا تین سال ہو سکتا ہے۔جس کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈروں کی مشاورت سے ہو گا۔
ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں دو سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پنشن اصلاحات میں صرف ریٹائر ہونے کی عمر بڑھانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ پنشن کے نظام کی خامیاں دور کرنے اور ان افراد کو بھی اس دائرے میں لانے کی ضرورت ہے جو اس سے باہر ہیں۔
ڈاکٹر سلہری کہتے ہیں کہ اس وقت پنشن کمیٹی کے سامنے ریٹائرمنٹ کی عمر کے ساتھ ساتھ پنشن میں ملازموں کی شراکت داری، ایک شخص کو ایک سے زیادہ پنشن دینے کا معاملہ، بھاری پنشن لینے والوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے، اور پرائیویٹ شعبے کی پنشن کے معاملات شامل ہیں۔
یہ وہ چیزیں ہیں جن پر ملکی وسائل، معاشرے کے تقاضے اور جدید دنیا میں جاری طریقہ کار کو سامنے رکھتے ہوئے کمیٹی کو ایسی تجاویز مرتب کرنی ہیں جو دیرپا بھی ہوں اور دور رس نتائج کی حامل بھی۔
تاہم پروفیسر ڈاکٹر علی اعظم کہتے ہیں کہ پنشن اصلاحات کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں کرنا چاہیے جو اس وقت پنشن لے رہے ہیں، یا آئندہ چند برسوں میں پنشن پر جانے والوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنی مالی منصوبہ بندی کر چکے ہیں جس میں کوئی بھی تبدیلی ان کے لیے پریشانی کا سبب بنے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ پنشن اصلاحات نئے ملازموں یا اس میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والوں کے لیے ہونی چاہیئں۔
پاکستان میں اس سے قبل ہونے والی پنشن اصلاحات میں فیملی پنشن کی عمر 10 سال اور فوجی خدمات کے دوران انتقال کرنے والوں کی فیملی پنشن کی مدت 20 سال کر دی گئی تھی۔ شہری حقوق کے بہت سے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے مستقبل میں کئی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا ہوں گے۔
ڈاکٹر عابد گل نے شراکت داری پر مبنی پنشن کے جس نظام کی تجویز دی ہے، اس سے ملتے جلتے نظام کئی ممالک میں رائج ہیں۔ ان ملکوں میں کام کرنے والے ہر شخص کی آمدنی کا ایک حصہ پنشن فنڈ میں چلا جاتا ہے اور ایک مقررہ عمر کو پہنچنے کے بعد اسے ماہ بہ ماہ پنشن ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ اکثر ترقی یافتہ اور فلاحی ممالک میں بڑھاپے میں علاج معالجے اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی حکومت کے ذمے ہوتی ہے جس کے لیے کئی ادارے کام کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صفدر سہیل کہتے ہیں کہ پنشن اصلاحات کمیٹی کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ 70 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہر پاکستانی شہری کو پنشن کا تحفظ حاصل ہو اور وہ تحفظ سب کے لیے یکساں ہو۔ کم آمدنی والے ملازموں اور کارکنوں کے معاملے میں حکومت ان کی کی پنشن کو یکساں سطح پر لانے کے لیے وسائل پیدا کرے۔
حکومت اس بارے میں کیا سوچ رکھتی ہے، یہ تو پنشن اصلاحات کمیٹی کی سفارشات سامنے آنے اور اس کی منظوری کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ ہر شعبے میں کارکنوں نے نے اپنی محنت اور توانائیاں اس معاشرے کو آگے بڑھانے پر صرف کی ہیں، اب یہ معاشرے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھے اور انہیں مشکلات میں اکیلا نہ چھوڑے۔
فورم