پاکستان، جس کا شمار ایک زمانے میں کپاس برآمد کرنے والے ملکوں میں ہوتا تھا، اب ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرونی ملکوں سے بڑے پیمانے پر کپاس درآمد کر رہا ہے۔
پاکستان ایک زمانے میں کپاس کی 20 سے 25 لاکھ گانٹھیں برآمد کرتا تھا جب کہ اب اسے ہر سال 45 لاکھ تک گانٹھیں بیرونی ملکوں سے منگوانی پڑتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں کئی وجوہات کی بنا پر کپاس کی مقامی پیداوار نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ کپاس پیدا کرنے والوں کی تنظیم پی سی جی اے کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال 15 جنوری تک کپاس کی 8 اعشاریہ تین ملین گانٹھیں پیدا ہوئی تھیں جب کہ پچھلے سال اسی عرصے میں ساڑھے دس لاکھ ملین گانٹھیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس طرح پچھلے سال کی پیداوار کے مقابلے میں 20 فی صد سے زیادہ کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کپاس پیداکرنے والوں کی تنظیم ہر دو ہفتوں کے بعد اپنی رپورٹ جاری کرتی ہے۔ تازہ رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس سال ہدف کے مقابلے میں کپاس کی پیداوار 9 ملین گانٹھوں سے کم رہ سکتی ہے۔
15 جنوری کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کپاس بیلنے والی فیکٹریوں نے اس سیزن کے دوران 8 اعشاریہ 22 ملین گانٹھیں تیار کیں جب کہ ٹیکسٹائل سیکٹر نے 56 ہزار گانٹھیں خریدیں۔
کپاس پیدا کرنے والوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں کمی کی کئی وجوہات ہیں جن میں کپاس کے زیرکاشت رقبے میں کمی، صحت مند بیج اور کیڑے مار ادویات کے حصول میں مشکلات، موسمی حالات، کیڑوں کے حملے اور حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی شامل ہیں۔
گروپ کا کہنا ہے کہ ملک کی چار اہم فصلوں یعنی کپاس، گندم، چاول اور مکئی کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ کپاس کی پیداوار گھٹنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت نے کپاس کو فصلوں کی اپنی ترجیحی فہرست سے نکال کر وہاں گنا ڈال دیا ہے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے کپاس کی فصل کو بچانے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے تو اس کی پیداوار مزید گر سکتی ہے۔