پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ ریاست اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق سے متعلق وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی توجہ دے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور ان کے حقوق سے متعلق ایک از خود نوٹس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے منگل کو یہ ہدایات جاری کیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے ہندو رکن قومی اسمبلی رمیش کمار ونکوانی کی طرف سے توجہ دلائے جانے پر سپریم کورٹ نے 2014ء میں اس معاملے کا نوٹس لیا تھا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے سماعت مکمل کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق سے متعلق پالیسی ساز حلقوں کو اسی قدر توجہ دینی چاہیے جیسے کہ بچوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
ان کے بقول ان برادریوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ جیسے انھیں پاکستان کے دیگر شہریوں کی نسبت خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور انھیں یہ محسوس ہو کہ ان کے حقوق پاکستان میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔
مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان میں اکثر غیر مسلم اور اقلیتی فرقوں سے امتیازی سلوک کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں جس پر انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے مقامی و بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں اس ملک میں اقلیتوں کے حقوق کی صورتحال کو غیر تسلی بخش قرار دیتی ہیں۔
حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں پیش ہونے والے اٹارنی جنرل نے بینچ کو یقین دلایا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والوں کی تمام عبادت گاہوں کو سکیورٹی فراہم کی گئی ہے اور حکومت ہندوؤں کے مندروں کی بحالی پر بھی توجہ دے رہی ہے۔
انھوں نے رواں سال ہندوؤں کی شادی کے اندراج سے متعلق کی جانے والی قانون سازی کا حوالہ دیتے ہوئے ججز کو یقین دلایا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق تمام عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس دوست محمد نے یہ ہدایت بھی کی کہ اقلیتی برادری کو اقلیت کی بجائے غیر مسلم کہہ کر مخاطب کیا جائے جیسا کہ آئین پاکستان میں درج ہے۔
رکن قومی اسمبلی رمیشن کمار ونکوانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے کی جانے والی ہدایات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اقلیت کا لفظ استعمال کیے جانے سے تنگ نظری جھلکتی ہے لہذا یہ ایک مناسب ہدایت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے جس سے پاکستان میں آباد غیر مسلم آبادی کو زیادہ تحفظ اور فلاح کا احساس ہو۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ملک میں آباد تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور وہ رنگ، نسل اور مذہب کے فرق کے بغیر ان کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔