رسائی کے لنکس

مشکل سے دوچار سرفراز الیون اور ورلڈ کپ


دبئی میں پہلا ٹیسٹ ختم ہونے پر پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی آسٹریلوی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ فائل فوٹو
دبئی میں پہلا ٹیسٹ ختم ہونے پر پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی آسٹریلوی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستان کی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دبئی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پلڑا بھاری ہونے اور بظاہر یقینی جیت کے باجود جیت نہ سکی اور کینگروز نے میچ کے آخری روز زبردست کھیل پیش کیا اور میچ ڈرا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ بہت سے کرکٹ مبصرین میچ کے پاکستان کی فتح کی بجائے ڈرا پر اختتام کو کپتان سرفراز احمد کی دفاعی حکمت عملی اور آسٹریلیا کو فالو آن نہ کرانے کا سبب قرار دیتے ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ اس جانب بھی توجہ دلا رہے ہیں کہ نہ صرف اگلے ٹیسٹ میچ کے لیے بلکہ 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹیم کمبی نیشن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

عمران فرحت پاکستان کے قومی ٹیسٹ کرکٹر ہیں۔ وہ 40 ٹیسٹ میچوں، 58 ایک روزہ اور سات ٹی ٹوئنٹی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ آج کل پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ اور ملک سے باہر لیگز کھیلنے میں مصروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دبئی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کو فالوآن نہ کرانے کا فیصلہ دفاعی اور کمزور حکمت عملی کا عکاس تھا۔

’’ سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا، میچ پاکستان کے پاس تھا۔ آسٹریلیا کی ٹیم کو جب فالوآن ہو گیا تھا تو اسے ہی دوسری اننگ کھلانی چاہیے تھی۔ ایسی کنڈیشن میں ٹیم مشکل سے واپس آتی ہے۔ فیصلہ کپتان سرفراز کا تھا یا ٹیم مینجمنٹ کا، بہت ہی غلط اور ناقابل فہم فیصلہ تھا‘‘

عمران فرحت آسٹریلیا کی ٹیم کو بھی میچ بچانے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں آسٹریلیا والے کلینیکل کرکٹ کھیلتے ہیں اور گیم پلان سے نہیں ہٹتے، بھلے گراؤنڈ پر کچھ بھی ہو رہا ہو جبکہ پاکستان کے ڈریسنگ روم میں ہر لمحے ایک سے ایک پلان بنتا رہتا ہے۔ پانچ پانچ مشیر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر کاشف سہیل انصاری ہیں تو امریکہ میں موجود میڈیکل ڈاکٹر لیکن کرکٹ کا شوق ان کو ہر اس جگہ لیے پھرتا ہے جہاں پاکستان کی ٹیم پہنچتی ہے۔ وہ نجی ٹیلی ویژن کے لیے ایک پروگرام بھی کرتے رہے ہیں اور آج کل مختلف چینلز پر بطور سپورٹس اینالسٹ پروگرامز میں شریک ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ واضح نظر آیا کہ ٹیم کے پاس گیم پلان نہیں تھا یا پھر کوچ اور کپتان ایک صضحے پر نہیں تھے۔ یہی چیز آسٹریلیا کے لیے میچ بچانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

’’ مکی آرتھر نے اپنے انٹرویو میں صاف کہا ہے کہ پلان تو تھا کہ کھیل کے پانچویں روز یاسر شاہ اور بلال آصف سے اٹیک کرایا جائے مگر سرفراز نے وہاب پر اعتبار کیا۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اگلے ٹیسٹ میچ میں ایک سے دو تبدیلیاں ممکن ہیں۔

’’ وہاب ریاض کی جگہ ہو سکتا ہے جنید خان کو موقع ملے اور شاداب اور بلال میں سے کوئی ایک کھیلے‘‘

ڈریسنگ روم کے ماحول سے واقف ڈاکٹر کاشف کہتے ہیں کہ حفیظ کی ٹیم میں شمولیت بہتر فیصلہ ثابت ہوا اور سرفراز نے غالبا کوچ کی مرضی کے برعکس انہیں ٹیم میں شامل کرایا تھا۔

کرکٹر عمران فرحت نے وائس آف امریکہ کے ساتھ فیس بک لائیو میں کہا کہ ٹیم کمبی نیشن بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

’’ اگر بابر اعظم کو تیسرے نمبر پر نہیں کھلانا تو بہتر ہے ان کو باہر بٹھا دیں اور ان کی جگہ کوئی آل راونڈر ٹیم میں شامل کر لیں‘‘

کرکٹ پنڈٹس کو فکر صرف یہ نہیں کہ ایشیا کپ میں خراب پرفارمنس کے بعد گرین شرٹس آسٹریلیا کے خلاف بھی میج فنش نہیں کر سکے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ چند ماہ بعد انگلینڈ میں ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ کے لیے پاکستانی ٹیم کہاں کھڑی ہے۔ عمران فرحت کہتے ہیں۔

’’ ٹیم مینجمنٹ کو چاہیے کہ ابھی سے ورلڈ کپ کو ذہن میں رکھے۔ مزید ایک روزہ میچز حاصل کرے اور ورلڈ کپ کی ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے جن کی موجودہ فارم اچھی ہو۔ ٹیم سلیکشن ایمانداری سے ہو ، پسند ناپسند کی بنیاد پر نہیں۔ ‘‘

کیا محمد حفیظ کی ٹیسٹ میں شاندار واپسی اور سنچری ورلڈ کپ تک ان کی کرکٹ کو لے جا سکتی ہے؟ اس پر عمران فرحت کہتے ہیں۔

’’ ضروری نہیں۔ مگر کوچ کپتان اور سیلکٹرز سر جوڑ کے بیٹھیں۔ جو لڑکے اس وقت اچھا کھیل رہے ہوں، ان کو شامل رکھیں۔ اس وقت کوئی نیا تجربہ تو نہیں ہو گا لیکن کمبی نیشن اچھا ہونا چاہیے‘‘

ڈاکٹر کاشف انصاری ورلڈ کپ کی تیاریوں پر کہتے ہیں۔

’’ ورلڈ کپ تو دور کی بات ہے۔ مجھے آئندہ چھ ما ہ کا بھی ٹیم کا شیڈول اور پلان نظر نہیں آتا۔ روزانہ بنیادوں پر فیصلے ہو رہے ہیں۔ ٹیم انہی لڑکوں میں سے منتخب ہو گی، انہی سے کام چلانا ہو گا۔‘‘

تاہم وہ خبردار کرتے ہیں کہ کپتان سرفراز کو اپنی کارکردگی بہتر کرنا ہو گی۔

’’ سرفراز اگر ایسا ہی کھیلتے رہے تو مجھے لگتا ہے وہ ٹیم میں اپنی جگہ کھو بیٹھیں گے۔ انہیں خود ابھی اچھا پرفارم کرنا ہے تاکہ باقی لڑکوں کا اعتماد بڑھا سکیں‘‘

کرکٹ پنڈٹس کہتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم میں صلاحیتوں کی کمی نہیں، بس ان کو نکھارنے، کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط بنانے اور ٹیم کمبی نیشن بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG