موجودہ سال جسے یورپ اور امریکہ میں معاشی اور مالیاتی مشکلات اور مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کے سال کے طورپر دیکھا جارہاہے، صحافت کے شعبے کے لیے بھی آزمائش کا سال ثابت ہوا ہے۔عرب دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد اطلاعات کے مطابق وہاں میڈیا پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف برما، چین اور شمالی کوریا میں عالمی دباؤ کے باوجود پریس اور اظہار رائے کی آزادی کی راہ میں پہلے کی طرح روڑے اٹکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کے حقوق اور آزادیوں سے متعلق عالمی تنظیمیں پاکستان کی صورت حال پربھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں اظہار رائے کی آزادیوں کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس کی پروگرام آفیسر کورٹنی ریڈش کہتی ہیں کہٕ میڈیا کی آزادی کو قائم رکھنا نہ صرف عرب خطے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان کا کہناہے کہ ٕہم نے میڈیا کی آزادی کے حوالے سے پچھلے سال کی نسبت اس سال ٕٕمصر کا درجہ کم کر کے اسے ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں میڈیا پرپابندی کافی زیادہ ہیں۔وہاں فوجی کونسل نے ہنگامی قوانین نافذ کر رکھے ہیں اور کئی بلاگرز اور صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔ تیونس میں حالیہ انتخابات میں میڈیا کو قدرے زیادہ آزادی حاصل تھی ۔ مگر اس آزادی کی پائیداری ایک مسئلہ ہے۔ معاشی مسائل اور میڈیا کے بدلتے رجحانات کے باوجود ٕ میڈیا کی آزادی کو قائم رکھنا نہ صرف اس خطے کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
آزادی اور جمہوریت کے لئے شروع کی جانے والی تحریکوں میں عموماً جن مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کی جاتی ہے ان میں بھی میڈیا کی آزادی سرفہرست ہوتی ہے۔ مگر کچھ عرب ممالک میں ان سیاسی تبدیلیوں کے بعد پریس کی آزادی پر مزید پابندیاں لگا دی گئیں ۔
فریڈم ہاؤس ہر سال دنیا بھر میں میڈیا کی آزادی کےحوالے سے سب سے مخدوش حالات رکھنے والے ممالک کی ایک فہرست تیار کرتا ہے ۔ اس سال بھی اس فہرست میں وہی چند ممالک سرفہرست ہیں جو پچھلے کئی برسوں سے میڈیا کو پابند رکھنے کی کوششوں میں ہیں ۔ کورٹینی ریڈش کہتی ہیں کہ برما، شمالی کوریا اور چین ان ممالک میں سر فہرست ہیں جہاں پریس کی آزادی پر سخت پابندیاں ہیں۔
ان کا کہناہے کہ دنیا میں میڈیا کی آزادی پرپابندیوں کی بات کی جائے تو اس فہرست میں سب سے اوپر برما اور شمالی کوریا ہیں ۔ مگر جہاں تک ذرائع ابلاغ کی آزادی اورباقی دنیا سے رابطے کا تعلق ہے کچھ عرب حکومتوں اور حکمرانوں کے برعکس جنہوں نے میڈیا پرمکمل پابندی کی بجائے اسے بڑی ہوشیاری سے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا ہے۔ جہاں تک انٹرنیٹ کا تعلق ہے، چین انتہائی مہارت سے اپنا الگ انٹرنیٹ بنانے اور فائر وال تیار کرنے میں مصروف ہے۔
صحافیوں کی تنظیوٕں کا کہنا ہے کہ موجودہ سال کے دوران دنیا کے کئی خطوں میں صحافیوں کے لئے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں درپیش مشکلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کچھ ممالک جن میں پاکستان سرفہرست ہے صحافیوں کے لئے خطرات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معلومات تک رسائی اور اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانا حکومتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جو کہ مضبوط جمہوریت کی بنیاد ہے۔